حکام نے بتایا کہ پیر کی سہ پہر پشاور کے پولیس لائنز علاقے میں ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم 17 افراد ہلاک اور 83 زخمی ہو گئے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہ زخمیوں میں سے کچھ کی حالت تشویشناک ہے۔
دھماکا تقریباً 1 بجکر 40 منٹ پر اس وقت ہوا جب ظہر کی نماز ادا کی جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس، فوج اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکار مسجد کے اندر موجود تھے۔
رپورٹر نے بتایا کہ عمارت کا ایک حصہ گر گیا تھا اور کئی لوگ – خاص طور پر جو نماز کے دوران اگلی صف میں کھڑے تھے – کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے نیچے ہیں۔
ٹیلی ویژن چینلز پر چلائے جانے والی خبروں میں دکھایا گیا ہے کہ لوگ مسجد کی منہدم دیوار کے گرد جمع ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ مسجد میں بم نصب کیا گیا تھا یا یہ خودکش حملہ تھا۔ ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی ہے۔
دوسری جانب پولیس نے ریڈ زون کی طرف جانے والی سڑکیں بند کر دی ہیں۔
دھماکے کی اطلاع کے بعد ایک ٹویٹ میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پشاور میں ہونے والے "دہشت گرد خودکش حملے” کی شدید مذمت ۔
Strongly condemn the terrorist suicide attack in police lines mosque Peshawar during prayers. My prayers & condolences go to victims families. It is imperative we improve our intelligence gathering & properly equip our police forces to combat the growing threat of terrorism.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) January 30, 2023
اس نوعیت کا آخری بڑا واقعہ گزشتہ سال پشاور میں پیش آیا تھا، جب کوچہ رسالدار کے علاقے میں شیعہ مسجد کے اندر خودکش دھماکے میں 63 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اسلام آباد میں سیکیورٹی ہائی الرٹ
اسلام آباد پولیس کے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل ڈاکٹر اکبر ناصر خان نے دارالحکومت میں "سیکیورٹی ہائی الرٹ” رکھنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ شہر کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے اور سیف سٹی سسٹم کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔
پولیس نے مزید کہا کہ سنائپرز کو "اہم مقامات اور عمارتوں” پر رکھا گیا تھا اور پولیس کو تھرمل امیجنگ کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔