جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں بھی انتخابات کو مینج کیا گیا، یہاں کا مینڈیٹ بھی عوامی نہیں بلکہ بنایا گیا ہے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبوں میں انتخابات کو مینج کیا گیا، سیاسی لوگ آپس میں ویسے ہی لڑتے ہیں، اور جنہیں اقتدار ملتا ہے انہیں بھی مینج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے حوالے سے ریاستی پالیسیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ افغان جنگ کے بعد مہاجرین ایران بھی گئے لیکن ایران نے انہیں جنگ کے لیے بیس کیمپ نہیں دیا، جبکہ پاکستان میں جنگ کے لیے بیس کیمپ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی کہ روس کے خلاف جہاد تھا لیکن امریکا کے خلاف کیوں نہیں؟
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت مسلکی تنازعات اور جنگیں نہیں ہیں، وفاق المدارس عربیہ نے 150 علما کو بلایا، جنہوں نے ملک میں اسلحہ اٹھانے اور لڑنے کو غیرشرعی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ملک کے مفاد میں بات کرتے ہیں اور داعش یا کسی اور شدت پسند تنظیم کے حامی نہیں۔ افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے حکومت اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں لے کر افغانستان کا دورہ کیا، وہاں تمام معاملات پر بات چیت کی اور ان کے نتائج کو پاکستان میں رپورٹ کیا، جسے سراہا گیا۔
انتخابات پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور اسٹیبلشمنٹ سمیت ان جماعتوں سے اختلاف رکھتے ہیں جو ان نتائج کو قبول کر چکی ہیں۔ ان کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا، جبکہ نواز شریف کا سیاست میں کوئی نمایاں کردار نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کی ناکامی سے انتہاپسندی اور شدت پسندی کو فائدہ ہوگا۔ جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان تعلقات میں بہتری آ رہی ہے، رویوں میں نرمی دیکھی جا رہی ہے اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع حاصل کر رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کا مستقبل میں سیاست میں کیا کردار ہوگا، اس کا فیصلہ انہیں خود کرنا ہے، تاہم سیاست میں ہمیشہ بات چیت کی گنجائش ہونی چاہیے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ عید کے بعد جے یو آئی کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا، جس میں مستقبل کی پالیسیاں طے کی جائیں گی۔