کراچی کی ایک لڑکی دعا زہرہ کی کہانی جس کے اپریل میں اغوا ہونے اور بعد میں پنجاب میں مبینہ طور پر فرار ہونے کا انکشاف ہوا تھا، کیس میں عوامی دلچسپی کو بہت بڑھا دیا ہے۔
دعا زہرہ کے مبینہ اغوا اور فرار نے، جس کے والدین نابالغ ہونے کا اصرار کرتے ہیں اس معاملے نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کررکھا ہے اور دو صوبوں میں پھیلی عدالتوں میں کیسز ، ٹیلی ویژن پر بات کرنے والے اینکرز اور سوشل میڈیا پنڈتوں کے لیے خوب مواد کا مہیا کر رہا ہے۔
یہاں، ہم گزشتہ چند مہینوں میں کیس میں ہونے والی پیش رفت پر نظر ڈالتے ہیں:
16 اپریل 2022: دعا کو کراچی کے علاقے ملیر سے اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ کچرا پھینکنے گھر سے باہر نکلی تھیں۔ دعا کے والدین نے اسی دن ایف آئی آر درج کرادی۔
20 اپریل 2022: کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن نے لڑکی کا سراغ لگانے کے لیے تین خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں۔ سوشل میڈیا پر غم و غصے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی کیس کا نوٹس لے لیا۔
23 اپریل 2022: پولیس کے تفتیش کاروں نے لڑکی کی بازیابی کے لیے خفیہ ایجنسیوں سے تکنیکی مدد طلب کی۔
25 اپریل 2022: وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں نے لڑکی کے مقام کا سراغ لگا لیا ہے لیکن رازداری کی وجہ سے اسے بتایا نہیں جا سکتا ۔ دریں اثنا، اسی دن پولیس کا ایک بیان بھی سامنے آیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ دعا نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔
26 اپریل 2022: دعا کو لاہور کی ماڈل ٹاؤن کورٹس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں اس نے بتایا کہ اس نے لاہور کے ایک لڑکے ظہیر احمد کے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ اس کی گواہی کی روشنی میں، مجسٹریٹ نے اسے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ اس دن پہلے، دعا اور ظہیر کو اوکاڑہ سے بازیاب کر کے لاہور پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
7 مئی 2022: کراچی پولیس نے چار ملزمان کے خلاف عبوری چالان جاری کیا، جن میں ظہیر اور تین دیگر شامل تھے جو نکاح کی تقریب کے وقت موجود تھے۔ ان پر اغوا، عصمت دری اور جبری شادی کے الزامات لگائے گئے تھے۔
8 مئی 2022: دعا کے والد مہدی علی کاظمی نے سندھ ہائی کورٹ میں یہ کہتے ہوئے شادی کو ختم کرنے کی درخواست دائر کی کہ ان کی بیٹی کم عمر ہے۔
11 مئی 2022: سندھ ہائی کورٹ نے سندھ پراسیکیوٹر جنرل سمیت حکام کو 19 مئی تک کیس پر رائے دینا کا حکم دیا۔
<p style=”text-align: justify;”>20 مئی 2022: سندھ پولیس نے دعا کا طبی معائنہ کرانے کی استدعا کی، لیکن لاہور کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔
24 مئی 2022: سندھ ہائیکورٹ نے سیکرٹری داخلہ کو دعا کی تلاش کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت کی اور حکام سے 30 مئی تک "اغوا” لڑکی کو پیش کرنے کو کہا۔
28 مئی 2022: سندھ ہائی کورٹ کے بنچ نے سست رفتار تحقیقات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس اور دیگر پولیس حکام کو خبردار کیا کہ اگر دعا کو دو دن کے اندر عدالت کے سامنے پیش نہ کیا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
31 مئی، 2022: آئی جی پی سندھ کو دعا کی برآمدگی پرعدالتی احکامات کا "احترام” نہ کرنے پر شوکاز نوٹس بھیجا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے بنچ نے اغوا شدہ لڑکی کو 3 جون تک ان کے سامنے پیش کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔
5 جون 2022: لاہور پولیس نے دعا اور اس کے مبینہ شوہر ظہیر کو بہاولنگر سے بازیاب کر کے سندھ پولیس کے حوالے کر دیا جو جوڑے کو سندھ ہائی کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے لیے کراچی لے گئے۔
6 جون 2022: سندھ پولیس نے دعا اور اس کے مبینہ شوہر ظہیر کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا، اور عدالت نے حکم دیا کہ لڑکی کو اس کی عمر کا تعین کرنے کے لیے میڈیکل ٹیسٹ کے لیے شیلٹر ہوم لے جایا جائے۔ دریں اثنا، دعا نے سندھ ہائیکورٹ بنچ کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا، "مجھے اغوا نہیں کیا گیا تھا۔ میں نے اپنی مرضی سے ظہیر سے شادی کی اور اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں”۔
8 جون 2022: کیس کے حتمی فیصلے میں، سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ لڑکی اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اور اسے خود مختاری حاصل ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہے رہنے کا انتخاب کرے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ شواہد اس کے اغوا کا کیس ہونے کے اہل نہیں ہیں۔
16 جون 2022: سندھ پولیس نے سندھ ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ دعا کے مقدمے کی ایف آئی آر منسوخ کی جائے اور غلام مصطفیٰ اور علی اصغر کو بری کرنے کی اجازت دی جائے، کیونکہ فیصلہ اغوا کے الزامات سے انکار کرتا ہے۔
18 جون، 2022: دعا کے والد نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
23 جون 2022: پانچ دن بعد، سپریم کورٹ نے دعا کے والد کی درخواست واپس لینے کے بعد اسے نمٹا دیا۔ کاظمی کے وکیل کا کہنا ہے کہ اب وہ میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے اور نکاح نامہ کو چیلنج کرنے کے لیے فیملی کورٹ سے بھی رجوع کریں گے۔
25 جون 2022: کراچی کی عدالت نے سندھ پولیس کو دعا کی عمر کے تعین کے لیے تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیا، جس کے بعد اس مقصد کے لیے 10 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا۔
28 جون، 2022: دعا کے والد نے کیس کے تفتیشی افسر کو تبدیل کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں درخواست کی، دلیل دی کہ وہ بظاہر اس معاملے کی تفتیش جانبدارانہ انداز میں کر رہے ہیں۔
29 جون 2022: دعا کی عمر معلوم کرنے کے لیے 10 رکنی میڈیکل بورڈ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ تاہم لڑکی اس کے سامنے پیش نہیں ہوئی۔
2 جولائی 2022: دعا کو اس کی عمر کا تعین کرنے کے لیے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کیا گیا۔
3 جولائی 2022: کراچی کی عدالت نے کیس کے تفتیشی افسر کو ہٹانے کی درخواست مسترد کر دی۔
4 جولائی 2022: میڈیکل بورڈ نے نتیجہ اخذ کیا کہ دعا کی مجموعی عمر 15-16 سال کے درمیان ہے۔ اس کے والد کے وکیل کا کہنا ہے کہ لڑکی کے بیانات اور اس سے قبل کی گئی میڈیکل رپورٹ جس میں اس کی عمر 17 سال بتائی گئی تھی جو کہ غلط ثابت ہوتی ہے۔