پاکستان ان 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صحافیوں اور میڈیا پر حملوں کے ذمے داروں کو سزا نہیں ملتی۔ جان لیوا حملوں کے علاوہ، صحافیوں کو دیگر قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ جسمانی حملے، اغوا، جبری گمشدگی، قید اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) کے مطابق، پاکستان کو صحافیوں کے لیے پانچویں خطرناک ترین مقام کی درجہ بندی میں رکھا گیا ہے، اس کی حالیہ مثالوں میں، پاکستان کے سب سے معزز اخباری کالم نگار اور ٹیلی ویژن کے مبصر ایاز امیر کو ان کی اپنی گاڑی سے باہر گھسیٹ کر اور ایک مصروف سڑک پر وہاں جمع ہونے والے ہجوم کے سامنے ان سے بدتمیزی کی گئی۔ ان کا موبائل چھین لیا گیا۔
ان کے ساتھ یہ سب کچھ اسلام آباد میں ایک سیمینار میں ان کی تقریر کے ایک دن بعد ہوا جو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی۔ ان کی یہ تقریر سخت اور طنز سے بھری ہوئی تھی۔ ان کے الفاظ نے ان طاقتوں کو پریشان کر دیا جو ان دنوں اپنے عروج پر ہیں۔
جبکہ دوسرا واقع معروف صحافی ، یوٹیوبر اور اینکر پرسن عمران ریاض خان کے ساتھ پیش آیا ہے، جو موجودہ حکمران اتحاد کے سب سے زیادہ ناقد ہیں، ان کو منگل کو دیر گئے رات اسلام آباد ٹول پلازہ سے اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا کہ ایک عدالت نے انہیں قبل از گرفتاری ضمانت دے رکھی ہے۔
عمران ریاض خان نے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ لگاتے ہوئے گرفتاری دے دی۔۔۔۔۔۔#میں_بھی_عمران__ریاض_ہوں#WeStandWithImranRiaz pic.twitter.com/e2DTpDL01a
— Engr Adil Nawaz (@adilnawazpti) July 5, 2022
پاکستان میں جاری موجودہ سیاسی طوفان میں برداشت کی سطح گرتی دکھائی دے رہی ہے۔
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) نے شہباز حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان میں میڈیا کے خلاف بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے درمیان میڈیا اہلکاروں اور صحافیوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
موجودہ اتحادی حکومت کے ارادے قطعی اس کے برعکس ہیں، عمران ریاض، جو اس وقت ایکسپریس نیوز سے وابستہ ہیں، کئی ایسے مقدمات میں پھنس چکے ہیں جن کے بارے میں ان کے بقول ان کے "سچ بولنے سے روکنے” سے انکار کی وجہ سے ہوا تھا۔
ان کے خلاف بغاوت کی حوصلہ افزائی اور ریاستی اداروں پر تنقید جیسے سنگین الزامات کے تحت ایک درجن سے زیادہ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ان کی گرفتاری کی ایک ویڈیوز، جو گزشتہ رات سے سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں،جن میں پنجاب پولیس کے ایک درجن سے زائد اہلکاروں کو ان کی گاڑی کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔
ویڈیو میں عمران ریاض کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت لینے وفاقی دارالحکومت جا رہے تھے۔ "مجھے نہیں لگتا کہ اس گرفتاری سے کوئی فرق پڑتا ہے.. میں تمام صحافیوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ آپ آواز اٹھائیں اور اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں،” انہوں نے مزید کہا کہ گرفتاری عدالت کی واضح توہین ہے۔
"یہ اسلام آباد کا دائرہ اختیار ہے جہاں مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے کیونکہ یہاں سے ٹول پلازہ شروع ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ (چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) نے بھی میری ضمانت کرائی ہے اس لیے اس صورتحال میں یہ گرفتاری غلط ہے۔ مجھے صبح ضمانت کے لیے ان کی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا،‘‘ صحافی کو ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
جبکہ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ پولیس حکام نے بتایا کہ صحافی کو سٹی اٹک تھانے میں ملک مرید عباس نامی شہری کی شکایت پر الیکٹرانک کرائمز ایکٹ اور چھ دیگر دفعات کے تحت درج مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی آر میں شہری نے بتایا کہ اس نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں عمران ریاض نے ریاستی ادارے کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کی۔
یہ مجھے اندر کر دیں یا جان سے مار دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا گرفتاری کے وقت پاکستان ذندہ باد کا آخری ٹویٹ 🇵🇰#WeStandWithImranRiazKhan pic.twitter.com/VF9GRPpARF
— Imran Khan (@ImranRiazFanz) July 5, 2022
اپنی گرفتاری سے ایک روز قبل ریاض نے شہباز شریف کی زیرقیادت حکومت پر تنقید کی تھی اور یوٹیوب پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی تھی، جس میں انہوں نے ‘براہ راست چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہیں دھمکیاں دی گئیں ہیں’۔ ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال کے بارے میں عسکری ذرائع سے سوالات پوچھنے پران کے خاندان کو دھمکیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پاکستان میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 1990 سے 2020 کے درمیان ملک میں 138 میڈیا پرسنز ڈیوٹی کے دوران یا حکومتی اور اداروں پر سوال کرنے کے جرم میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار اور سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ آزادی صحافت، آزادی اظہار اور اظہار رائے کسی بھی ترقی یافتہ اور صحت مند معاشرے کی پہچان ہے اور اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا”۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی حالت پر تشویشناک ہوتی جارہی ہے، PFUJ کے مطابق: "کم از کم اب تک 9 واقعات میں، صحافیوں کو ڈرایا گیا یا مکمل طور پر خاموش کر دیا گیا، چاہے وہ حملہ، جبری گمشدگی، قتل یا کھلے عام سینسر شپ کی صورت میں ہوں۔”
صحافیوں کے لیے یہ حالات صرف ایک حکومت میں ہی ابتر نہیں رہے ، ڈان اخبار نے، پی ٹی آئی حکومت کے دور کو میڈیا کے لیے خوفناک قرار دیا۔ میڈیا والوں کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے ہراساں کیا گیا اور حتیٰ کہ خواتین صحافیوں اور اینکرز کو بھی کابینہ کے ارکان نے ہراساں کیا اور ٹرول کیا، جو کسی مہذب معاشرے میں نہیں دیکھا جا سکتا۔
جبکہ موجودہ اتحادی حکومت بھی یہی کام کر رہی ہے، حکومتی اور ریاستی دباؤ کے سامنے نہ جھکنے والوں کو مالی طور پر سزا دی جارہی جس سے میڈیا ہاؤسز اور میڈیا پرسنز کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
ان کشیدہ حالات میں سمجھداری کا تقاضہ ہے کہ موجودہ حکومت کو فوری طور پر آزادی صحافت کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرے تاکہ ایسی حکمت عملی وضع کی جا سکے جو ملک میں آزادی صحافت کا تحفظ کر سکے۔
مزید پاکستانی خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : پاکستان