پاکستان میں کار مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی جانب سے پیداوار میں کٹوتی کے علاوہ اگلے چند ہفتوں میں کچھ دنوں کے لیے پلانٹ بند کرنے کے اعلانات بھی کیے گئے ہیں۔
چند کمپنیوں کی جانب سے نئی گاڑیوں کی بکنگ روک دی گئی ہے جبکہ پہلے سے بک کرائی گئی گاڑیوں کے صارفین کو بھی ڈیلیوری میں مشکلات کا سامنا ہے۔
جولائی کے مہینے میں کار مینوفیکچررز کی جانب سے پیداوار میں کٹوتی کے بعد اگست میں مزید پیداوار میں کمی کے اعلان سے صارفین کو گاڑیوں کی فراہمی میں مزید تاخیر ہو جائے گی جس سے وہ صارفین پریشان ہیں جنہوں نے ایڈوانس رقم بھی جمع کرادی ہے۔
کار ڈیلرز کے مطابق ٹویوٹا انڈس موٹرز، پاک سوزوکی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ مزید بکنگ نہ لیں، کیا موٹرز کو ہلکا سا مسئلہ درپیش ہے لیکن زیادہ نہیں جب کہ ہونڈا موٹرز نے بکنگ بند نہیں کی۔
اس حوالے سے ٹویوٹا انڈس موٹرز نے باضابطہ طور پر صارفین کو بتایا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو بغیر کسی کٹوتی کے ایڈوانس کے طور پر جمع کی گئی رقم واپس لے سکتے ہیں۔
پیداوار کم کیوں ہوئی؟
کار مینوفیکچرنگ کمپنیوں نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا تھا کہ ملک میں کار بنانے والی کمپنیوں نے صارفین سے بکنگ کے لیے دی گئی ایڈوانس رقم کی مد میں 150 ارب روپے لیے ہیں۔ کمیٹی نے گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کمپنیوں کے مالیاتی کھاتوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔
کمپنیوں کی جانب سے گاڑیوں کی ترسیل میں تاخیر کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں ان میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کے باعث گاڑیوں کی تیاری کے لیے پرزوں کی درآمد میں دشواری سرفہرست ہے۔
کمپنیوں کے مطابق زیادہ تر پارٹس بیرون ملک سے منگوائے جاتے ہیں اور عدم دستیابی کی وجہ سے پیداواری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور گاڑیوں کی تیاری ممکن نہیں ہوتی جس کی وجہ سے صارفین کو گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں ملک میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 54 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ملک میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 80 ہزار کے قریب چھوٹی اور بڑی گاڑیاں فروخت کی گئیں.
دوسری جانب ملک میں گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ کار کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کی قدر میں اضافہ بتائی جاتی ہے۔
ڈالر کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے
گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹویوٹا انڈس موٹرز نے صارفین کی طرف اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں اپنے تحریری بیان میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک انہیں اپنے مطلوبہ ڈالر کا صرف 35 سے 40 فیصد پرزہ جات درآمد کرنے کی اجازت دے رہا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی پیداوار کو اسی حساب سے کم کر دیا ہے۔
پاک سوزوکی موٹرز کے ترجمان شفیق اے شیخ نے اس حوالے سے کہا کہ بینک درآمد کے لیے ایل سی نہیں کھول رہے ہیں جو ‘سی کے ڈی’ کٹس کے لیے درکار ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 236 روپے سے زائد ہے۔
اس وقت درآمدات کی ایل سی 240 روپے فی ڈالر سے اوپر طے ہو رہی ہے اور ملک میں بیرونی ذرائع سے ڈالر کی آمد کم ہونے کی وجہ سے درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے جس کا شکار آٹو سیکٹر ہے۔ اسی طرح ملک میں کام کرنے والی کمپنیاں بھی ہیں کیونکہ بڑھتے ہوئے درآمدی بل کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔
پاک سوزوکی کے ترجمان کے مطابق جولائی کے مہینے میں پیداواری عمل کو کسی طرح سے ایڈجسٹ کیا گیا تھا تاہم اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو کمپنی اگست کے مہینے میں اپنا پلانٹ بند کر سکتی ہے۔ ترجمان کے مطابق پیداوار میں مستقبل میں اضافے کا انحصار ایل سی کھلنے پر ہے۔
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے کہا کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ڈالر کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال اور اسپیئر پارٹس زیادہ تر بیرون ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں، اس لیے اگر بینک ایل سیز نہیں کھولیں گے تو پیداوار لازمی طور پر متاثر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت صورتحال تشویشناک ہے، جس کی واحد وجہ ملک میں ڈالر کی کمی ہے، جس کے لیے پالیسی سازوں کو مل کر سوچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سی کے ڈی کٹس کی درآمد کے لیے قواعد و ضوابط کی سختی کی وجہ سے بھی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
صارفین کیسے متاثر ہوں گے؟
ٹویوٹا انڈس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ جن صارفین کی جانب سے گاڑیاں بک کرائی گئی ہیں وہ اپنی ڈیلیوری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ کمپنی گاڑی کی ڈیلیور نہیں کر سکتی، اس لیے انھوں نے ایسے صارفین سے کہا ہے کہ یا تو تین سے چار ماہ انتظار کریں یا پھر اپنے پیسے واپس لے لیں۔
پاک سوزوکی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کمپنی کی جانب سے بک کی گئی گاڑیاں جون 2022 تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
حکومتی ادارے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز نے کہا کہ پاکستان کی آٹو پالیسی کے تحت اگر کمپنیاں بکنگ کے 60 دنوں کے بعد گاڑی کی ڈیلیوری نہیں کرتیں تو انہیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے جو کہ کمپنی کی جانب سے ادا کی گئی ایڈوانس رقم پر مارک اپ ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں بھی انہیں یہی جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
مزید پاکستان سے متعلق خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : پاکستان