ایک غیرمعمولی اقدام میں، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے جمعہ کو جوڈیشل کمنیش آف پاکستان (جے سی پی) کی کارروائی کی آڈیو سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ پرعام کردی جس میں سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے ان کے پانچ نامزد امیدواروں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے، جو جوڈیشل کمنیش کے چیئرمین بھی ہیں، نے یہ فیصلہ اس وقت لیا جب جے سی پی کے دو ارکان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے چیئرمین اور کمیشن کے دیگر ارکان کو الگ الگ خط لکھے۔
"ان غیر معمولی حالات میں عزت مآب چیئرمین جے سی پی نے جے سی پی رولز 2010 کے قاعدہ 5(4) کے تحت پابندی میں نرمی کرتے ہوئے یہ کروائی کی ہے اور 28.07.2022 کی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی کارروائی کی آڈیو ریکارڈنگ کو جاری کرنے کی ہدایت کی، سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ "ٹائم سلاٹ 1:29:45 سے 1:38:08 تک کی آڈیو ریکارڈنگ میں اٹارنی جنرل برائے پاکستان اشتر اوصاف علی کا بیان موجود ہے” جس کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوا۔ جیسا کہ پی آر او نے دعوی کیا ہے۔
بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اٹارنی جنرل نے "سپریم کورٹ میں تقرری کے لیے تجویز کردہ ہائی کورٹ کے ججوں میں سے کسی کی بھی خوبیوں کا اندازہ نہیں لگایا اور نہ ہی مسترد کیا”۔
"نتیجتاً، جوڈیشل کمیشن کے 5 اراکین نے میٹنگ کو ملتوی کرنے کی حمایت کی جیسا کہ 28.07.2022 کے پریس نوٹ میں بتایا گیا ہے،” سپریم کورٹ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے۔
‘انا کا تصادم’
یہ پیشرفت جو ڈیشل کمیشن میٹنگ اور ہائی کورٹ کے جونیئر ججوں کو اعلیٰ عدلیہ میں ترقی دینے کے معاملے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان سامنے آئی ہے۔
سینئر وکلاء نے اس معاملے کو "ذاتی انا کا تصادم” قرار دیا ہے، یہ بتاتے ہوئے کہ جج اس تاثر سے بچنے کے خواہاں تھے کہ وہ میٹنگ میں اقلیت میں تھے۔
اسی طرح، کوئی وضاحت پیش نہیں کی گئی کہ چیف جسٹس مبینہ طور پر کسی حکم کا اعلان کیے بغیر اچانک اجلاس سے کیوں چلے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اے جی پی اشتر اوصاف نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سپریم کورٹ میں ترقی پر غور کرنے کا مشورہ دیا۔
سپریم کورٹ کے بیان کے بعد، جسٹس عیسیٰ اور جسٹس مسعود نے جوڈیشل کمیشن کو خطوط لکھے۔
اپنے خط میں جسٹس مسعود نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پی آر او کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں "واقعات کا بالکل مختلف ورژن پیش کیا گیا "۔ انہوں نے "میٹنگ روم میں ہر ممبر کے مشاہدات/بات چیت کی تفصیل دیتے ہوئے میٹنگ کے حقائق پر مبنی اور درست تفصیلی منٹس کو فوری طور پر جاری کرنے” پر زور دیا۔
خط میں الزام لگایا گیا کہ جب یہ معاملہ واضح ہوا کہ کمیشن کے پانچ ارکان نے چار نامزد ججوں کے ناموں کو نامنظور کیا ہے تو چیف جسٹس "غیرمعمولی، غیر جمہوری طریقے سے اور کمیشن کے اپنے فیصلے کو ڈکٹیٹ کیے بغیر اور میٹنگ کو باضابطہ طور پر ختم کرتے ہوئے” اچانک اٹھ کھڑے ہوئے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ان کی پیروی کی اور ‘ایڈجرن’ کا لفظ بولتے ہوئے میٹنگ روم سے باہر چلے گئے۔
خط میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ جو ڈیشل کمیشن کے ایک اور رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اجلاس کے اچانک ختم ہونے کے بعد کمیشن کے چیئرمین اور دیگر اراکین کو خط لکھا، جس میں بتایا گیا کہ میٹنگ کے دوران کیا ہوا تھا۔
جسٹس مسعود نے لکھا کہ ’میں نے یہ لکھنے سے پہلے ان سے بات کی تھی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا ان کے پیغام کی وصولی کے بعد معزز چیئرمین یا کسی رکن نے کل میٹنگ کے بعد جو لکھا تھا اس پر اختلاف کیا ؟
اس کے بعد پریس ریلیز جاری کی گئی۔ پبلک ریلیشن آفیسر کمیشن کا رکن نہیں ہے اور نہ ہی وہ کمیشن کا سیکرٹری ہے۔
دریں اثنا، جسٹس عیسیٰ نے اپنے خط میں زور دیا کہ ججوں کی تقرری پر جے سی پی کے فیصلوں کو عوامی طور پر جاری کیا جائے۔
جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس مسعود نے بھی یہی کہا کہ چیف جسٹس بندیال نے "جو فیصلے کیے گئے تھے وہ ڈکٹیٹ نہیں کیے، اور اچانک اجلاس سے چلے گئے، جس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن” بھی اٹھ کر چلے گئے۔
مزید اہم خبریں پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : اہم خبریں