بلوچستان کے ضلع نوشکی میں طوفانی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے بے گھر ہونے والے سیکڑوں خاندانوں کو مشکلات کا سامنا ہے،سیلاب نے ان کے لوگوں کے گھر تباہ کر دیے ہیں اور وہ اب رہنے کے قابل نہیں ہیں اور ان کے پاس اپنے گھر دوبارہ بنانے کے وسائل نہیں ہیں۔
تین دن گزرنے کے باوجود انہیں حکومت کی جانب سے تاحال کوئی خیمہ یا کھانا نہیں ملا اور لوگ پریشان ہیں کہ بچوں کو کہاں کھلائیں کیونکہ سیلاب نے سب کچھ بہا دیا ہے۔
سیلاب کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی مدد بھی نہیں کرپارہے۔
بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ 26 اضلاع میں سے بیشتر میں متاثرین کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔
لسبیلہ میں عوام کی مشکلات دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں ضلع کی 75 رابطہ سڑکیں بحال نہ ہونے سے کئی علاقوں میں لوگ ایک ہفتے سے زائد عرصے سے سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
Gresha District Khuzdar under flood, yesterday after heavy rain, flood hit this small village in Gresha District #Khuzdar #Balochistan let me explain in next tweet why and how this village was hit by flood. pic.twitter.com/F7gm0Ygeqd
— Mumtaz Sajidiᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠᅠ (@Xumtazsajidi) July 29, 2022
نوشکی اور لسبیلہ جیسے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے زیادہ تر لوگ حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد سے مطمئن نہیں ہیں۔
تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں اور اب تک ہزاروں خاندانوں کو خیمے اور راشن فراہم کیا جا چکا ہے۔
دیگر علاقوں کی طرح نوشکی میں بھی بارشیں ہوئی ہیں تاہم علاقہ مکینوں اور مقامی صحافیوں کے مطابق 28 جولائی کی شام ہونے والی طوفانی بارش نے جو تباہی مچا دی، نوشکی شہر کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
شہر کے شمال میں قادر آباد کے علاقے میں موسلا دھار بارش کے ساتھ حفاظتی بند میں شگاف پڑنے سے تباہی کی شدت میں اضافہ ہوا جس سے مکانات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔
نوشکی میں متاثرہ علاقوں میں کچھ مکانات کے زیرآب آنے کے حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی گھر نہیں بلکہ برساتی نالے ہیں۔
نوشکی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی شاہ نذر بادینی کا کہنا تھا کہ انہوں نے نوشکی شہر میں بارشوں اور سیلاب سے تباہی کے ایسے مناظر نہیں دیکھے۔
ان کا کہنا ہے کہ طوفانی بارشوں سے پورا ضلع متاثر ہوا تاہم جہاں تک مکانات کو پہنچنے والے نقصان کا تعلق ہے نوشکی شہر کے گردونواح میں مکانات کو کافی نقصان پہنچا ہے اور وہ رہنے کے قابل نہیں رہے۔
شدید گرمی بے گھر افراد کی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے
نوشکی بلوچستان کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں گرمی کے موسم میں دن کے وقت گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔
لوگوں کو شدید گرمی میں پریشان کن صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ ان کے گھر رہنے کے قابل نہیں ہیں۔
قادر آباد کی طرح نوشکی کے دیگر علاقوں میں بھی متاثرین کو امدادی اشیاء نہ ملنے کی شکایت ہے جس کے خلاف ہفتہ کو نوشکی شہر اور احمدوال میں بھی لوگوں نے احتجاج کیا۔
In other news. These people are citizen of Pakistan.
Just a soft reminder.#Balochistan pic.twitter.com/QpIAS4chZt— Ali Rind (@AliRind) July 26, 2022
تاہم ڈپٹی کمشنر نوشکی نعیم گچکی کا کہنا ہے کہ 28 جولائی کو جب طوفانی بارش نے تباہی مچائی تو انتظامیہ نے ریسکیو آپریشن شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ بارش اور سیلاب سے بڑی تعداد میں مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور خوراک کی فراہمی کے علاوہ متاثرین کو خیمے بھی فراہم کیے جا رہے ہیں جبکہ بٹو کے علاقے میں خیمہ بستی بھی قائم کر دی گئی ہے۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ قدرتی آفات کو روکنا ناممکن ہے تاہم حکومت اور انتظامیہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔
لسبیلہ کے مختلف علاقوں میں لوگ تاحال پھنسے ہوئے ہیں
اگرچہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے لیکن لسبیلہ اور جھل مگسی دو ایسے اضلاع ہیں جہاں کے کئی علاقے مکمل طور پر زیر آب آچکے ہیں۔
24 جولائی کو ضلع لسبیلہ کے کئی علاقے زیر آب آگئے اور ہزاروں افراد پھنس گئے جن میں اورکی سے تعلق رکھنے والے خیر محمد بلوچ بھی شامل ہیں جو اپنے خاندان کے سو افراد سمیت پھنس گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی انہیں باہر نکالنے نہیں آیا لیکن جب پانی کی سطح تین فٹ تک کم ہوئی تو ان کے خاندان کے مردوں نے ہمت کی اور اپنی مدد سے بچوں اور خواتین کو تیسرے روز محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔
خیر محمد بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ پانچویں روز حکومت کے لوگوں نے اس محفوظ مقام پر تھوڑا سا راشن پہنچایا تھا جو ان کے اہل خانہ اور ان کے ساتھ آنے والے دیگر افراد کے لیے بالکل ناکافی تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کے خاندان کے افراد محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے لیکن پھر بھی بڑی تعداد میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔
لسبیلہ کے دیگر علاقوں کے متاثرین بھی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے امدادی سامان کی فراہمی کی اپیل کرتے نظر آئے۔
لسبیلہ کے سینئر صحافی پیر بخش کلمتی نے کہا کہ لسبیلہ میں لوگوں کی مشکلات اب بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ 24 جولائی سے کئی علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہے۔
#Lasbela hundreds stranded in floods, so far no effective rescue operation to rescue people #Balochistan pic.twitter.com/rXEqI78poM
— Quetta Voice (@VoiceQuetta) July 27, 2022
انہوں نے کہا کہ لاکھڑا اور کنراج وہ علاقے ہیں جہاں لوگ پچھلے سات دنوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں زمینی رابطہ منقطع ہے وہاں کے لوگوں تک ہیلی کاپٹروں کے ذریعے راشن پہنچایا جا رہا ہے لیکن ان کے پاس کھانا پکانے کا کوئی انتظام نہیں ہے کیونکہ دیگر اشیاء کی طرح برتن بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔
چیف سیکرٹری بلوچستان نے لسبیلہ میں امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی ہدایت کر دی
چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے اتوار کو ضلع لسبیلہ کا دورہ کیا اور وہاں ان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی ہوا۔
ایک سرکاری بیان کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ ضلع میں کوئٹہ کراچی مرکزی شاہراہ سے 75 رابطہ سڑکیں ہیں جو ابھی تک زمین سے منقطع ہیں۔
بیان کے مطابق چیف سیکرٹری نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا اور ڈائریا کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری صحت کو مختلف علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگانے کی ہدایت کی۔
میٹنگ میں چیف سیکرٹری نے علاقے میں ریلیف فراہم کرنے اور لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے مزید ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ صرف ضلع لسبیلہ میں 19 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 30 ہزار کے قریب افراد اور مویشی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
سیلاب سے ہلاک ہونے والے بچوں اور خواتین کی تعداد
جون کے وسط میں شروع ہونے والی بارشوں کے باعث سب سے زیادہ اموات بلوچستان میں ہوئیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق 31 جولائی تک جاں بحق افراد کی تعداد 136 تھی جن میں 56 مرد، 33 خواتین اور 47 بچے شامل ہیں۔
پی ڈی ایم اے بلوچستان کے ڈائریکٹر ریلیف عطا اللہ مینگل نے ہلاک ہونے والی خواتین اور بچوں کی مجموعی تعداد کی متعدد وجوہات بتائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعض علاقوں میں جب سیلاب آیا تو خواتین اور بچے خود کو نہ بچا سکے اور مردوں کے مقابلے کمزور ہونے کی وجہ سے ریلوں میں بہہ گئے جبکہ بعض علاقوں میں خواتین اور بچوں کو ایک دوسرے کو بچانا پڑا۔ کوشش کے دوران ان کی بھی موت ہو گئی۔
انہوں نے ضلع چاغی کے علاقے دشت گوران میں تین لڑکیوں کی ہلاکت کے واقعے کے بارے میں بتایا کہ وہ بہنیں تھیں، ان میں سے ایک سیلابی پانی میں ڈوب گئی، پھر دونوں بہنوں نے اسے بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی وہ بھی انتقال کر گئی۔
#PakNavy Humanitarian Assistance & Disaster Relief (HADR) Operations continue in flood hit areas of #Balochistan. Tent village & medical camp established in Uthal & surrounding areas.
Relief goods dropped in effected areas through Helicopters@OfficialDGISPR @dgprPaknavy #ISPR pic.twitter.com/JsNWUv6nBD
— Pakistan Armed Forces 🇵🇰 (@PakistanFauj) August 1, 2022
انہوں نے کہا کہ اسی طرح ضلع مستونگ میں دو خواتین سیلاب میں بہہ گئیں۔ جب ان میں سے ایک پانی میں گر گئی تو اسے بچانے کی کوشش میں دوسری خاتون بھی بہہ کر جاں بحق ہو گئی۔
بلوچستان کے اضلاع سیلاب سے متاثر
بلوچستان کے کل 34 اضلاع میں سے 26 اضلاع طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر ریلیف عطاء اللہ مینگل نے کہا کہ ان میں سے کچھ اضلاع جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں جبکہ دیگر بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں لسبیلہ، جھل مگسی، کچھی، نوشکی، پنجگور، قلات، کوئٹہ، پشین اور قلعہ سیف اللہ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ 14 ہزار خاندانوں کو خیمے اور راشن فراہم کیا گیا ہے اور مزید 23 ہزار خاندانوں کو راشن فراہم کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ متاثرہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے مزید 21 ہزار خیموں اور 27 ہزار راشن کا مطالبہ کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے لسبیلہ کے دورے کے موقع پر کہا کہ متاثرین کو نہ صرف ہر ممکن امداد فراہم کی جائے گی بلکہ ان کے نقصانات کا ازالہ بھی کیا جائے گا۔
مزید پاکستانی خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : پاکستان