پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ملک کے کئی علاقوں میں ہنگامی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ سیلابی ریلوں سے ایک طرف درجنوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور سینکڑوں مکانات بہہ گئے ہیں تو دوسری جانب ملک کے مختلف حصوں میں سڑک کے مختلف حادثات میں انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔
اس کی تازہ مثال وہ واقعہ ہے جس میں ایم نائن لنک روڈ پر کراچی سے حیدرآباد جانے والی مسافر گاڑی پانی کے نالے میں گرنے سے میاں بیوی اور 4 بچوں سمیت 7 افراد لاپتہ ہوگئے۔
ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ گاڑی کو تباہ شدہ حالت میں نکال لیا گیا ہے تاہم لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے آپریشن جاری ہے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں مسافر گاڑی پھسل کر سیلابی ریلے میں بہہ گئی ہو۔ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں ٹریکٹر ٹرالی سیلابی پانی کی زد میں آکر ڈوب کر کم از کم 15 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
Flash flood in Naran.
— Discover Pakistan 🇵🇰 | پاکستان (@PakistanNature) August 17, 2022
ایسی مثالیں بھی ہیں کہ سیلابی پانی میں پھنسی گاڑیوں کو بچانے کے لیے کسی اور نے اپنی گاڑی پانی میں اتاردی۔
لیکن بعض اوقات مدد کے لیے آنے والے ڈرائیور خود ہی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات کا فقدان یا عوام کی غفلت؟
p style=”text-align: justify;حکومت ہنگامی حالات اور سیلاب میں کیا اقدامات کرتی ہے؟
طوفان، سیلاب یا برفباری کی صورت میں ملک کی شاہراہوں پر سفر کرنے والے مسافروں کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، این ڈی ایم اے کے ترجمان ادریس محسود نے کہا کہ ‘کسی بھی ہنگامی صورتحال میں، این ڈی ایم اے ایک جامع ایڈوائزری جاری کرتا ہے جس میں واضح طور پر عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے، ممکنہ تباہی کا علاقے سے انخلا، اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں، وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
یہ ایڈوائزری تمام متعلقہ وفاقی ایجنسیوں اور ضلعی اور مقامی انتظامیہ کو بھیجی جاتی ہے۔
ادریس محسود کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا پر بھی فوری طور پر آگاہی مہم چلائی جاتی ہے جیسا کہ آج کل موبائل فون پر کال کرتے وقت آگاہی کے پیغامات دیے جا رہے ہیں۔
لیکن بعض اوقات لوگوں کی غفلت یا جلد بازی انہیں ایسے حادثات کا شکار بنا دیتی ہے۔
موٹر ویز اینڈ نیشنل ہائی وے پولیس (این ایچ ایم پی) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ترجمان اسد شبیر نے بی بی سی اردو کو بتایا، "قدرتی آفات کے دوران سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ریسکیو، محکمہ موسمیات اور قدرتی آفات سے مشورہ کیا جانا چاہیے۔” ہینڈلنگ ایجنسی کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جاتا ہے اور مسافروں کو ٹی وی، ریڈیو کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور ہیلپ لائن سروس پر اشتہارات کے ذریعے صورتحال سے آگاہ رکھا جاتا ہے۔
p style=”text-align: justify;مثال کے طور پر سردیوں میں دھند سے متعلق سڑکوں کی بندش نہ صرف خبروں میں رپورٹ کی جاتی ہے بلکہ اس کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ متعلقہ اداروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی ایڈوائزری موصول ہونے کے بعد فوری طور پر ریسکیو اور دیگر اداروں کے ساتھ رابطہ قائم کرکے ہنگامی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
اسد شبیر نے کہا کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اگر روٹ کے مخصوص حصے پر بھی کوئی پریشانی ہو تو مسافروں کو آگاہ کریں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مسافروں کی حفاظت کے لیے سڑکوں پر کوئی انتباہی پیغامات لگائے جاتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہو، سرخ جھنڈوں سے لے کر مختلف سائن بورڈز لگائے جاتے ہیں تاکہ ڈرائیوروں کو سڑک پر ممکنہ خطرے سے آگاہ کیا جا سکے۔ ‘ٹول پلازوں پر عملہ اور آرام سٹاپ بھی راستے کی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ اب موٹرویز اور نیشنل ہائی وے پولیس نے بھی نگرانی کے لیے ڈرون کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
ایسی صورت حال سے بچنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
این ڈی ایم اے کے ترجمان ادریس محسود نے کہا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لیے لوگوں کو پہلے غیر ضروری سفر سے گریز کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے این ایچ ایم پی کے اہلکار اور رابطہ افسر یاسر محمود کا کہنا ہے کہ کسی بھی طویل سفر پر جانے سے پہلے لوگوں کو نیشنل ہائی ویز اور موٹر ویز کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری کو غور سے پڑھنا چاہیے۔ یہ تمام معلومات این ایچ ایم پی کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دستیاب ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس ایڈوائزری کے بارے میں جاننا ضروری ہے تاکہ کسی کو موسم کی صورتحال، سڑکوں کی صورتحال، راستے میں سہولیات اور سفر کی جگہ پر ممکنہ متبادل راستوں کے بارے میں معلومات مل سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انتہائی حالات میں جب سڑک بند ہو تو اس پر سفر کرنے سے گریز کیا جائے اور متبادل راستے اختیار کیے جائیں۔
اگر مقامی انتظامیہ، پولیس آپ کو سفر کرنے سے منع کر رہی ہے، تو اسے سنجیدگی سے لیں اور مصیبت میں پڑنے کے لیے اپنی ڈرائیونگ کی مہارت پر بھروسہ نہ کریں۔
اگر کوئی ایسی حالت میں اچانک پھنس جائے تو کیا کرنا چاہیے؟
ریسکیو 1122 کی اہلکار اور ترجمان دیبا شہناز کا کہنا ہے کہ:
1)گاڑی چلاتے وقت اپنی رفتار کو کم کریں۔
2)ریسکیو سروسز سے رابطہ کریں۔
3)مقامی لوگوں کے راستے کی معلومات پر بھروسہ کریں اور اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔
نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کے رابطہ افسر یاسر محمود کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کی صورت میں 100 فیصد تحفظ ممکن نہیں تاہم شدید بارش کے دوران بادل پھٹنے کی صورت میں فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل ہونا چاہیے۔
سیلابی صورتحال میں پہلے اپنی جان کی حفاظت کریں اور فوری طور پر اس جگہ سے واپس جانے کی کوشش کریں۔
سفر جاری نہ رکھیں اور اگر بہہ جانے کا خطرہ ہو تو گاڑی یا موٹر سائیکل کو جانے دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی گاڑی سیلابی رکاوٹ میں پھنس جائے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ گاڑی کو وہاں سے نکالا جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔
‘سیلاب کے پانی میں پھنس جانے کی صورت میں فوری طور پر گاڑی سے باہر نکلیں اور پانی کے کم ہونے کا انتظار نہ کریں، مزید پانی اسے ڈوب سکتا ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کے لیے آپ اہم ہیں گاڑی نہیں۔’
اگر موقع پر کوئی مقامی لوگ موجود ہوں تو ان کی ہدایات پر عمل کریں اور خستہ حال سڑکوں، کمزور پشتوں اور پلوں پر سفر کرنے سے گریز کریں۔
سیلابی پانی میں پانی کے بہاؤ کے خلاف یا اس کی سمت میں گاڑی چلانے کی کوشش نہ کریں۔
درخت، چٹان یا دوسری محفوظ چیز کے پیچھے رہنے کی کوشش کریں۔
مزید پاکستانی خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : پاکستان