پاکستان میں 2022 کا مون سون غیر معمولی حد تک طویل اور تباہ کن چل رہا ہے جس نے ملک کے طول و عرض میں سیلابی کیفیت پیدا کررکھی ہے۔ گلگت بلتستان سے لے کرکراچی تک ہلاکتوں اور تباہی کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے اور حکومت کو اس سے ہونے والے مالی نقصان کا مکمل تخمینہ لگانے میں مشکلات درپیش ہیں۔
پاکستان کے وفاقی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے 14 جون سے اب تک کے مجموعی اعداد و شمار کے مطابق دو ماہ کے دوران ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں کے باعث 780 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں اور ملک کے 109 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ جبکہ ایک لاکھ 76 ہزار سے زائد مکانات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔
#balochistan the largest province of our dear country is under heavy floods for more than 1.5 months. Over hundered’s of dead, thousands of unsheltered and hunger prevails, we have the unbothered provinicial as well as the federal gov#balochistanfloods #flood2022 #balochistan pic.twitter.com/H5VZNux2nP
— Uroojmunir (@Uroojmunir3) August 20, 2022
سیلاب کے باعث ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زیادہ مال مویشی بھی بہہ گئے ہیں۔
سیلاب اور بارش سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں بلوچستان خیبر پختونخوا اور سندھ شامل ہیں۔ بلوچستان کے 34 اور خیبرپختونخوا کے اضلاع 33 سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ سندھ کے 23 اضلاع کو صوبائی حکومت نے آفت زدہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے تین اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بالائی سندھ میں موجود ہوا کے کم دباؤ میں اگلے 12 گھنٹے کے دوران شدید کمی کا امکان ہے اور ایک اور ہوا کا کم دباؤ سندھ میں 23 اگست کو داخل ہو گا۔
دوسری طرف فلڈ فورکاسٹنگ ادارے نے 22 اگست کو سیلابی صورتحال سے متعلق نیا الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 23 اگست سے 26 اگست تک جنوبی پنجاب اور سرگودھا ڈویژنز میں مون سون بارش کے تازہ سلسلے کا امکان ہے۔ جبکہ دریائے سندھ کے بالائی علاقوں میں مزید بارشوں کا بھی امکان ہے۔
جس کے باعث 26 اگست تک پنجاب کے ضلع ڈی جی خان کے پہاڑی علاقوں سے مزید پانی آنے اور دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے۔
فلڈ فورکاسٹنگ نے خبردار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ کوہ سلیمان، سالٹ رینج سے منسلک ندی نالوں میں طغیانی کے باعث مشرقی بلوچستان کے علاقے سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
Most of Balochistan is in a state of emergency. Needs immediate help.#balochistanfloods pic.twitter.com/aKqqU8GPB7
— Tahir Bizenjo (@TahirBizenjoNP) August 21, 2022
دریں اثنا پنجاب اور سندھ کے درمیان سکھر ڈویژن کا ریل کے ذریعے ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے، محکمہ ریلوے نے ٹرین آپریشن معطل کرتے ہوئے ٹرینوں کو مختلف سٹیشنوں پر روک لیا ہے۔
ریلوے حکام کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ گمبٹ اور ٹنڈو مستی ریلوے سٹیشنوں کے درمیان مسلسل بارشوں کی وجہ سے ٹریک پر پانی جمع ہو گیا ہے اور ٹریک کی زمین بہت زیادہ نرم ہو جانے کے باعث کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے اور مسافروں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے ٹرین آپریشن معطل کیا جا رہا ہے اور مسافر ٹرینوں کو مختلف سٹیشنوں پر روک لیا گیا ہے۔
بلوچستان کی تازہ صورتحال کیا ہے؟
قومی سطح پر این ڈی ایم اے 14 جون سے اب تک کے نقصانات کے اعداد و شمار وقتاً فوقتاً جاری کرتا رہتا ہے۔
ان اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کے 34 اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں اب تک 216 اموات ہو چکی ہیں۔
دوسری جانب قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں ہفتے اور اتوار کے روز بارشوں اور سیلاب سے مزید 18 افراد ہلاک ہوئے۔ بلوچستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جون کے وسط سے لے کر اب تک ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد 225 ہو گئی ہے۔
بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے نقصانات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ سیلاب اور متوقع بارشوں کے پیش نظر بلوچستان بھر میں ایک ہفتے کے لیے تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت کے تحت تعلیمی ادارے 22 اگست تا 27 اگست تک بند رہیں گے۔
اتوار کو کوئٹہ میں صبح سے مغرب تک بارش کا سلسلہ جاری رہا جس کے باعث شہر میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے اور متعدد علاقوں میں گھروں کے اندر پانی داخل ہونے سے لوگوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
بلوچستان میں گذشتہ دو روز کے دوران جن علاقوں میں لوگوں کو سیلاب سے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں نصیر آباد ڈویژن میں جعفرآباد اور نصیر آباد کے اضلاع شامل تھے۔
Pakistan is currently suffering from the worst flood disasters & inflation, but the hypocritical media & the ruling political revenge are keeping the people and the world at bay.#تونسہ_بچاؤ
#PakistanFloods#سیلاب_متاثرین_بےیارو_مددگار#سیلاب_زدگان_کی_مدد_کرو#بلوچستان_کی_پکار pic.twitter.com/pOEUMugiFg— Sara Khan (@SaraKhanJadoon2) August 21, 2022
ان دونوں اضلاع کے متعدد علاقے پٹ فیڈر کینال میں شگاف پڑنے کی وجہ سے زیر آب آگئے انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ گھروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔
بلوچستان میں سیلاب سے نقصان پہچنے والے انفرا سٹرکچر کی بات کریں تو قدرتی آفات کے ادارے کے مطابق 26 ہزار مکانات، 710 کلومیٹر طویل شاہراہیں، 18 پل اور پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی متاثر ہوئے۔
سڑکوں اورپلوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے سبی اور جیکب آباد اور کوئٹہ کراچی ہائی کے سوا بلوچستان کا دیگر صوبوں سے زمینی رابطہ گذشتہ چار روز سے منقطع ہے۔ تاہم کوئٹہ اور کراچی کے درمیان شاہراہ پر ٹریفک کو اتوار کے روز کسی حد تک بحال کر دیا گیا۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے درمیان ژوب دانہ سر شاہراہ پر لینڈ سلائیڈنگ کے علاوہ شاہراہ کو پہنچنے والے نقصان کے باعث ٹریفک کی روانی معطل ہے۔ جبکہ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان ڈیرہ غازی خان کے راستے شاہراہ فورٹ منرو کے مقام بارشوں اورسیلابی ریلوں کے باعث بند ہے۔
صوبے کے مختلف اضلاع میں جو گھر مکمل منہدم ہوئے ہیں یا جن کو جزوی نقصان پہنچا ہے ان کی تعداد 26 ہزار 567 ہو گئی ہے۔ جبکہ دو لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
چند روز پہلے بلوچستان اسمبلی نے نقصانات کے حوالے سے جو قرارداد منظور کی اس میں وفاقی حکومت سے نقصانات کے ازالے کے لیے 50 سے 60 ارب روپے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
سندھ کی صورتحال
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ میں بارش اور سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے اقوام متحدہ، یونیسف، یورپی یونین و دیگر عالمی اداروں سے مدد اور تعاون کی اپیل کی ہے۔
پیر کو صوبے میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران سکھر بیراج پر بریفنگ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اس وقت 2010 کے سیلاب کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال سے بھی زیادہ خراب صورتحال ہے، بارشوں سے کراچی تا کشمور پورا سندھ متاثر ہوا ہے۔
انھوں نے صوبے کے سب سے برے شہر کراچی کے کچھ علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا ہے۔ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وقت 2010 سے بھی زیادہ مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ آج گڈو بیراج سے اور کل سکھر بیراج سے اونچے درجے کا سیلابی ریلی گزرے گا، سکھر سے کوٹری بیراج تک حفاظتی بند مضبوط بنانے کے لیے مشینری فراہم کردی ہے۔
پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے حالیہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کے باعث صوبے کے 23 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا ہے۔ ان اضلاع میں حیدرآباد، نواب شاہ، ٹھٹھہ، بدین، دادو، جامشورو اور ٹنڈوالہیار، خیرپور سمیت دیگر اضلاع شامل ہیں۔
محکمہ موسمیات نےصوبے میں آئندہ تین روز میں مزید طوفانی بارشوں کی پیشگوئی بھی کی ہے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں— pic.twitter.com/n7aVcs3JKg
— M Azhar Siddique (@AzharSiddique) August 18, 2022
دوسری جانب قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے اور صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ کے 23 اضلاع میں 103 بچوں سمیت 218 سے زائد اموات ہوئی ہیں اور 750 افراد سے زائد زخمی ہوئے۔ صوبے میں ساڑھے 13 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے۔
انفراسٹرکچر کے نقصان کی بات کریں تو 55528 مکانات، 2100 کلومیٹر طویل سے زیادہ سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، 45 پل اور 32 دکانیں بھی متاثر ہوئیں۔
صوبائی حکومت کے مطابق کورنگی کی تمام یونین کونسلز میں گلی کوچوں اور نجی سوسائٹیز میں جمع بارش کے پانی کی نکاسی کا کام تیزی سے جاری ہے۔
وزیر اعلٰی سندھ کا کہنا ہے کہ جیسے ہی بارشیں ختم ہوں گی، انفراسٹرکچر کی مرمت کا کام شروع کر دیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمارے شہروں کی نکاسی کا سسٹم 30 سے 40 ملی میٹر کا ہے لیکن 300 ملی میٹر بارش ہونے کے باعث نکاسی میں وقت لگے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر ہمیں اپنے نظام کو بہتر کرنا ہو گا۔
وزیر اعلٰی سندھ نے کہا کہ شدید بارشوں نے نوشہرو فیروز کے تمام پرانے تاریخی ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے صوبے کے ہر متاثرہ خاندان کو 25000 روپے دیے جائیں گے۔
ڈپٹی کمشنر مٹیاری محمد عدنان راشد کے مطابق مٹیاری ضلع میں 144 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جبکہ بارشوں کے سبب 20 ہزار سے زیادہ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ مٹیاری، ہالہ اور سعید آباد میں 73 ریلیف کیمپوں میں سات ہزار سے زیادہ متاثرین کو منتقل کیا جا چکا ہے۔ ڈی سی مٹیاری کے مطابق بارشوں سے متاثرہ افراد کو خیمے، مچھر دانیاں، راشن کے علاوہ تیار کھانا بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ضلع میں خریف کی تیار فصل کا 90 فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے اور بارشوں سے 203 جانور مر گئے ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق دو روز قبل سندھ کے لیے 35 ٹرک پر مشتمل امدادی سامان روانہ کیا گیا جس میں موجود راشن 84 ہزار افراد کی سات دن کی ضروریات پوری کرے گا۔
پنجاب کی صورتحال
پنجاب میں اب تک کی حالیہ بارشوں اور سیلاب سے صوبے کے تین اضلاع زیادہ متاثر ہیں جن میں 151 اموات ہوئیں اور 300 افراد مجموعی طور پر زخمی ہوئے ہیں۔
صوبے میں تقریباً 21 ہزار سے زیادہ مکانات، 33 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئیں جبکہ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سات پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں کوہ سلیمان پر ہونے والی طوفانی بارشوں سے برساتی ندی نالوں میں طغیانی ہے۔ نالہ وڈور میں تاریخ کا انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ جس سے اس کا مشرقی بند ٹوٹ گیا اور ڈیرہ غازی خان سے سخی سرور جانے والی روڈ پر قائم درجنوں بستیاں اور فیکٹریاں زیر آب آگئیں۔
تونسہ شریف بستی موہانے والا کا حفاظتی بند ٹوٹ گیا۔ سیلابی پانی کو چشمہ رائٹ بنک کنال کی طرف موڑ دیا گیا۔ بند ٹوٹنے کے بعد قریبی بستیوں کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں جبکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔
ضلعی انتظامیہ نے تونسہ شریف کے کوہ سلیمان کے دور دراز علاقوں میں رابطہ سڑک سیلابی پانی میں بہہ جانے کے بعد ریسکیو ریلیف آپریشن کے لیے فوج سے ہیلی کاپٹر کی خدمات طلب کر لی ہیں۔
اس سے قبل ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے پنجاب عثمان خالد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا ہماری سروے ٹیمز بن چکی ہیں لیکن اب تک پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے وہ ان علاقوں میں جا نہیں سکیں۔ ’ہمارا اندازہ ہے کہ یکم ستمبر سے ہماری ٹیمز سروے شروع کر سکیں گی۔‘
خیبر پختونخوا کی صورتحال
ادھر خیبر پختونخوا کے 33 اضلاع سیلاب سے کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوئے جبکہ صوبائی حکومت نے ڈی آئی خان اور چترال کے اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں 78 بچوں سمیت 149 موات ہو چکی ہیں جبکہ 186 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
صوبے میں مجموعی طور پر پچاس ہزار افراد متاثر ہوئے لیکن انفراسٹرکچر کی مد میں نقصان بلوچستان کی طرح نہیں ہوا۔
ساڑھے چھ کلومیڑ کی سڑکیں اور سات پل متاثر ہوئے جبکہ 13 ہزار سے زائد گھر جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہوئے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈپٹی کمشنر ڈیرہ نصر اللہ خان کے مطابق حالیہ سیلاب سے ضلع کے 147دیہات اور 8500 گھر متاثر ہوئے ہیں۔
Flash floods are wrecking havoc across Northern parts of Pakistan. #Chitral #PakistanFloods pic.twitter.com/aKPBYXkPWF
— Uzma Nadeem (@uznadym) August 21, 2022
انھوں نے سیلاب سے ضلع میں سات اموات اور 15 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے علاقے میں سیلاب متاثرین کے لیے چھ ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں، متاثرین کو رہائش، خوراک، شیلٹر اور ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک امدادی سامان کے 30 ٹرک متاثرہ افراد میں تقسیم کیے گئے ہیں۔
این ڈی ایم اے نے دو روز قبل کہا تھا کہ خیبرپختونخوا میں پانچ ہزار افراد کے لیے خیمے، ترپالیں اور مچھر دانیاں پہنچا دی گئی ہیں، 12ہزار افراد کے لیے راشن بیگ مہیا کیے ہیں، جو ان کی سات دن کی ضروریات پوری کرے گا۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر
اگر گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے متعلق بات کریں تو قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق خطے میں مجموعی طور پر 44 اموات ہوئیں جہاں بالترتیب چھ اور دس اضلاع کے تقریباً دس ہزار افراد متاثر ہوئے اور نو سو کے قریب مکانات متاثر ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ این ڈی ایم اے چیئرمین کے مطابق نقصانات کا یہ تخمینہ ابتدائی اطلاعات کی بنیاد پر لگایا گیا ہے جس کو حتمی نہیں کہا جا سکتا۔
17 اگست کو پریس کانفرنس میں چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹینینٹ جنرل اختر نواز نے کہا کہ نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے وفاق اور صوبوں کے ساتھ این ڈی ایم اے اور پاکستان فوج کام کریں گے۔
مزید پاکستانی خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : پاکستان