تعلیمی دباؤ بڑھنے سے بچوں میں جسمانی درد اور ڈپریشن میں اضافہ
کراچی: موجودہ تعلیمی نظام میں بچوں پر بڑھتے ہوئے تعلیمی دباؤ کے باعث نہ صرف ذہنی مسائل جیسے ڈپریشن اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ جسمانی تکالیف جیسے کمر اور گردن میں درد بھی عام ہو چکا ہے۔ اس صورت حال نے والدین اور تعلیمی ماہرین کے لیے سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں کہ کیا موجودہ تعلیمی نظام بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے سازگار ہے؟
ڈائریکٹوریٹ انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن آف پرائیویٹ انسٹیٹیوشن سندھ کی پروفیسر رفیعہ ملاح نے اس حوالے سے اہم رہنما اصول جاری کیے ہیں، جن میں نجی اسکولوں میں تعلیمی دباؤ اور ٹیوشن کی حوصلہ شکنی پر زور دیا گیا ہے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کئی طلبہ ٹیوشن سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں، جو تعلیمی معیار کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ صورتحال اس وقت زیادہ پریشان کن ہو جاتی ہے جب اسکول، جو اعلیٰ تدریسی معیار کا دعویٰ کرتے ہیں، کے باوجود بچے ٹیوشن سینٹرز پر انحصار کر رہے ہیں۔
موجودہ تعلیمی نظام میں سخت نظام الاوقات اور زیادہ ہوم ورک کی وجہ سے بچوں کو مناسب آرام یا جسمانی سرگرمیوں کا وقت نہیں ملتا۔ اس کے نتیجے میں بچے ڈپریشن، اضطراب، اور جسمانی تکالیف جیسے کمر اور گردن میں درد کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اسکول کے ساتھ ساتھ ٹیوشن کا بوجھ والدین کے لیے بھی مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ والدین کو اسکول اور ٹیوشن دونوں کی فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں، جبکہ تعلیمی معیار وہی رہتا ہے۔
پروفیسر رفیعہ ملاح نے نجی اسکولوں کے لیے کچھ رہنما اصول طے کیے ہیں تاکہ وہ بچوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ اسکولوں کو چاہیے کہ وہ ان طلبہ پر خصوصی توجہ دیں جو تعلیمی میدان میں پیچھے ہیں اور اضافی ٹیوشن لینے پر مجبور ہیں۔ اس سلسلے میں اسکولوں کو اندرون ملک ایسے پروگرامز تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں بچوں کو اضافی مدد فراہم کی جا سکے۔
اسکول انتظامیہ کو طالب علم اور استاد کے درمیان بہتر تعامل کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے تاکہ بچے کھل کر سوال پوچھ سکیں اور سیکھنے کا عمل مؤثر ہو سکے۔ اساتذہ کو بھی تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ بچوں کی مشکلات کو صبر و تحمل سے سنیں اور ایک ایسا تعلیمی ماحول فراہم کریں جس میں بچوں کو حوصلہ افزائی ملے، نہ کہ ڈانٹ ڈپٹ اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
مراسلے میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اسکولوں کو بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کے درمیان توازن برقرار رکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔ روزمرہ کے شیڈول میں جسمانی سرگرمیوں اور وقفوں کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ بچے ذہنی دباؤ سے بچ سکیں اور جسمانی طور پر صحت مند رہیں۔
ساتھ ہی بچوں کو صحت مند طرز زندگی کے اصولوں کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ نیند اور خود کی دیکھ بھال کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اسکولوں کو اپنی کلاس روم کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سیکھنے کا عمل مؤثر ہے اور صرف امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے تک محدود نہیں۔
اساتذہ کو یہ ذمے داری لینی چاہیے کہ وہ ہر بچے کی ترقی کو یقینی بنائیں۔ بچوں کی کامیابی کا معیار صرف درجات تک محدود نہ ہو، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ تصورات کو کتنا بہتر سمجھتے ہیں۔ بچوں کی جسمانی اور جذباتی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متوازن تعلیمی نظام تیار کیا جائے، جہاں ہر بچے کو ترقی کا موقع ملے۔