ہندوستان کو فی الحال وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو سرکردہ ارکان کی طرف سے پیغمبر اسلام محمد ﷺ اور امیرالمومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے خلاف توہین آمیزتبصروں پر بین الاقوامی ردعمل کا سامنا ہے۔دونوں ارکان، دہلی میڈیا کے سربراہ نوین جندال اور قومی ترجمان نوپور شرما – کو بی جے پی قیادت نے عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ تاہم، ان کے توہین آمیز بیانات پرسفارتی تنازع جاری ہے کیونکہ کئی عرب ممالک نے ان کے بیانات کی مذمت کی ہے، اور ہندوستانی حکومت سے عوامی معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی بھارتی اشیا کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ جاری ہے۔
اس سفارتی تنازع کے جواب میں،بی جے پی نے ایک بیان بھی جاری کیا جس میں کسی بھی مذہب کی مذہبی شخصیات کی توہین کی "سختی سے مذمت کی گئی”۔لیکن مودی کے ہندوستان میں اسلامو فوبیا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے ،بلکہ ایک معمول بن چکا ہے ۔
اسلامو فوبیا ہمیشہ ہندوستان میں ہندو قوم پرست دھڑوں کے نظریے کی ایک مرکزی خصوصیت رہی ہے۔ 1925 میں قائم ہونے والی ہندو قوم پرست نیم فوجی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے ہندوستان کو ہندوؤں کی سرزمین بنانے کے مشن کی قیادت کی ۔آر ایس ایس کے بانی اور پہلے سربراہ کیشو بلرام ہیڈگیوار نے اعلان کیا کہ "ہندو ثقافت” اس ملک کی "زندگی ہے سانس ہے” ۔ لہذا، انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہندوستان کو "محفوظ کرنا ہے تو ہمیں پہلے ہندو ثقافت کو پروان چڑھانا ہوگا”۔
1929 میں، ہیڈگیوار کے جانشین مادھو راؤ سداشیو راؤ گوالولکر – جو نازی جرمنی کے ہمدرد بھی تھے – نے لکھا کہ مسلم ثقافت ہندوستانی ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ "اسلام ایک خشک اور ریتلے علاقے میں پیدا ہوا”۔
اس اسلامو فوبیا کو انتخابی سیاست میں آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بھارتیہ جن سنگھ (1951-1977) اور جنتا پارٹی (1977-1980) – دونوں نے آسانی سے پھیلایا ۔ جیسا کہ بھارتی مؤرخ مرحوم مشیر الحسن نے لکھا کہ، ان کی مہمات کو ” جارحانہ اسلام کا رنگ دے کر دقیانوسی تصورات کے ذریعے بھڑکایا گیا” اور "ہندو قوم” کی تعمیر کا سبب بنایا گیا۔ یکساں طور پر، انہوں نے سیکولرازم کے خیال کی مذمت کی اور اسے ملک کی مذہبی اقلیت خصوصاً مسلم آبادی کو خوش کرنے کا ایک طریقہ بتایا۔ درحقیقت، آر ایس ایس اور جن سنگھ کے ایک کارکن نے ہی مسلم آبادی کے "انڈینائزیشن” کی تجویز پیش کی تھی تاکہ "ان کو پاک کر کے واپس اپنے دھرم کی طرف لایا جائے ۔”
وشو ہندو پریشد یا ورلڈ ہندو کونسل بھی اندرون اور بیرون ملک ہندو قوم پرستی کا پرچار کرنے میں ایک نمایاں قوت رہی ہے۔ 1964 میں قائم ہونے والی اس تنظیم کا مقصد ’’ہندو سماج کو منظم کرنا‘‘ ہے۔ان کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق، وی ایچ پی کی کوششیں بنیادی طور پر گاؤ رکھشا (گائے کی حفاظت)، "عیسائی چرچ کے ذریعے ہندوؤں کی مذہبی تبدیلی، اسلامی دہشت گردی، بنگلہ دیشی مسلمانوں کی دراندازی” اور مندر کی تعمیر جیسے مسائل پر مرکوز ہیں۔ خاص طور پر، 1992 میں، وی ایچ پی کے کارکنوں کے ایک ہجوم نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے اراکین کے ساتھ مل کر بابری مسجد کے ارد گرد کی رکاوٹ کو توڑ دیا اور 16 ویں صدی کی مسجد کو منہدم کردیا تھا۔ ہندو قوم پرستوں کا خیال ہے کہ مسجد ایک مندر کو گرا کر کے بنائی گئی تھی جس میں ہندو دیوتا بھگوان رام کی پیدائش کی جگہ نشان زد تھی۔ اس کے بعد ہونے والے ملک گیر فرقہ وارانہ فسادات میں ہزاروں لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔
بلاشبہ، وزیر اعظم کے طور پر کردار سنبھالنے سے بہت پہلے، نریندر مودی نے ہندو قوم پرست ہونے کی سند اچھی طرح سے حاصل کر لی تھی۔ اپنے سیاسی کیرئیر کے اوائل میں وہ آر ایس ایس کے ایک سرگرم رکن تھے، 1970 کی دہائی کے آخر میں ایک علاقائی آرگنائزر بنے۔آر ایس ایس نے 1985 میں مودی کو بی جے پی میں شامل کیا۔ وہ 2001 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے، پارٹی کے صفوں میں لگاتار آگے بڑھے۔ بھارتی علاقے گودھرا میں ہندو یاتریوں کو لے جانے والی ٹرین کی ایک بوگی میں آگ لگنے کے واقعے کے بعد ، مودی نے فوری طور پر پاکستانی سیکرٹ سروس کو مورد الزام ٹھہرایا اور مرنے والوں کی لاشوں کی پریڈ احمد آباد شہر میں کی۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جسے اخبارات نے "قتل اور عصمت دری کا ننگا ناچ” کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2000 کے قریب لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے 2,000 گھر تباہ اور 150,000 لوگ بے گھر ہوئے تھے۔
یقیناً، 2014 میں جب سے مودی وزیر اعظم بنے ہیں، اسلامو فوبیا ریاستی پالیسی کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ 2019 میں واضح ہوا، جب مودی کی زیرقیادت حکومت نے جلاوطن ہندوؤں کی مسلم اکثریتی ریاست کشمیر میں واپسی کے لیے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ نیو یارک میں ہندوستانی قونصل جنرل سندیپ چکرورتی نے امریکہ میں ممتاز کشمیری ہندوؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس اقدام کو "کشمیر میں ہندو ثقافت کے تحفظ” کی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’کشمیری کلچر، ہندوستانی کلچر ہے، یہ ہندو کلچر ہے۔‘‘
2019 میں بھی، مودی حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ (CAA) نافذ کیا جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم تارکین وطن کے لیے ہندوستانی شہریت کا ایک تیز رفتار راستہ فراہم کرتا ہے۔ جو کہ دراصل "ہندوستانی شہریت کے لیے ایک مذہبی امتحان” کی ایک کوشش تھی، جس کے ذریعے مسلمانوں کو مؤثر طریقے سے خارج کر دیا گیا۔ سی اے اے کے نفاذ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جنہیں حکومت نے بے دردی سے دبا دیا ۔
اسی طرح، ہر روز، ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو حملوں کی زد میں پاتے ہیں اور شدید خوف میں جی رہے ہیں، کیونکہ ملک میں لنچنگ اور نفرت انگیز تقریریں عام بات ہیں۔مثال کے طور پر، بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں، جس کی قیادت اب سخت گیر ہندو پنڈت اور بی جے پی کے سیاست دان یوگی آدتیہ ناتھ کر رہے ہیں، مارچ 2019 میں ایک مسلمان شخص کو ایک ہندو ہجوم نے اس وقت ہلاک کر دیا جب اس نے انہیں اسلامی مذہبی عمارت کو تباہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔2015 میں ایک 52 سالہ مسلمان شخص کو بھی ایک ہندو ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا تھا کیونکہ یہ شبہ تھا کہ وہ اپنے گھر میں گائے کا گوشت ذخیرہ کر رہا تھا۔ یہ لنچنگ نام نہاد "گائے کی حفاظت” کے مشن کا حصہ تھی – ایک پرتشدد مہم جس کی قیادت بی جے پی کی مقامی لیڈرز نے گائے کے گوشت اور ان کی تجارت کے خلاف کی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے درمیان ایسے حملوں میں 36 مسلمان (اور مجموعی طور پر 44 افراد) مارے گئے۔
دھمکانے اور خوف کا یہ کلچر آج بھی جاری ہے کیونکہ ہندو بالادستی پسند گروپ ہندو تہواروں کے دوران مسلمان گوشت فروشوں کو دکان بند کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ 2021 میں، مدھیہ پردیش کے اِندور شہر میں، ایک مسلمان چوڑیاں بیچنے والے کو ایک ہندو علاقے میں تجارت کرنے پر بری طرح زدوکوب کیا گیا۔ مدھیہ پردیش میں مسلم اسکریپ ڈیلر کو مبینہ طور پر "جے شری رام” کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا، جو کہ ایک ہندو قوم پرست جنگی نعرہ ہے۔
کوویڈ-19 وبائی مرض کے دوران، ہوسکتا ہے کہ دنیا رک گئی ہو۔ لیکن ہندوستان میں اسلاموفوبک حملے اور غلط معلومات کی مہم جاری رہی، کیونکہ مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلنے کا ذمہ دار ٹھہرانے کی وسیع پیمانے پر کوششیں کی گئیں۔یہ کوششیں اس وقت شروع ہوئیں جب کورونا سے متاثر ہونے والے تبلیغی جماعت کے ایک گروپ نے مارچ 2020 میں غیر دانستہ طور پر دہلی میں ایک بڑے اجتماع میں شرکت کی، جس کے نتیجے میں یہ وائرس ملک بھر کی کمیونٹیز میں پھیل گیا۔
بعد ازاں پاکستان کی جانب سے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے ثبوت کے طور پر تصاویر شیئر کی گئیں۔ اس کی وجہ سے اسپتالوں نے مسلم مریضوں کو داخل کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اسلامو فوبیا کے اس ماضی اور حال کو مدنظر رکھتے ہوئے، بی جے پی کے ان دو ارکان کے تبصرے شاید ہی غیر معمولی لگیں گے۔ ہندوستان اب تک اپنے اندرون ملک اسلام فوبیا کی لہر کو مسلم ممالک کے ساتھ اپنے وسیع تر اسٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات سے الگ تھلگ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔لیکن اس مسلسل تنازعے نے پانی کو کیچڑ بنا دیا ہے ، بھارتی حکومت کی طرف سے خلیج تعاون کونسل کے ساتھ اس کی 90 بلین ڈالرز کی تجارت بچانے اور مسلم دنیا میں اسٹریٹجک شراکت داروں کو یہ یقین دلانے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں کہ ہندوستان اتحاد کی جگہ ہے۔ ساتھ ہی ملک کے اندر، بی جے پی کے اراکین کو عوامی فورم میں مذہب پر بحث کرتے وقت "انتہائی محتاط” رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ لیکن ان کوششوں کا مقصد صرف سفارتی نتائج پر قابو پانا ہے۔ اس سے مودی کے ہندوستان میں رہنے والے ہندوستانی مسلمانوں کی روزمرہ کی آزمائشوں اور مشکلات کے تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
مزید بین بین الاقوامی خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : بین الاقوامی خبریں