امریکی صدر بائیڈن اگلے ماہ نئے گروپ کی مجوزہ ورچوئل سمٹ کی میزبانی کریں گے۔ گروپ کے قیام کا فیصلہ گزشتہ سال ہندوستانی وزیر خارجہ کے دورہ اسرائیل کے دوران دیگر تین ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ میٹنگ کے دوران کیا گیا تھا۔
چار ممالک کے اس نئے گروپ ‘آئی ٹو یو ٹو‘کے پہلے سربراہی اجلاس کی میزبانی امریکی صدر جو بائیڈن جولائی میں کریں گے۔
ایک سینئر امریکی اہلکار نے بتایا کہ صدر جو بائیڈن 13 اور 16 جولائی کے درمیان مشرق وسطیٰ کے اپنے دورے کے دوران ایک ورچوئل سربراہی اجلاس کی میزبانی کریں گے۔ کانفرنس میں نئے تشکیل پانے والے ‘آئی ٹو یو ٹو‘گروپ کے دیگر رہنما، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان بھی شرکت کریں گے۔
گروپ کا نام ‘آئی ٹو یو ٹو‘ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ آئی ٹو ‘ کو دو مرتبہ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے انڈیا اور اسرائیل۔ اسی طرح ‘ یو ٹو‘ سے مراد دو مرتبہ U ہے، یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ (USA) اور متحدہ عرب امارات (UAE)۔ امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ ورچوئل سربراہی اجلاس میں غذائی تحفظ کے بحران اور تعاون کے دیگر شعبوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
سینئر اہلکار کے مطابق صدر بائیڈن، وزیر اعظم مودی، وزیر اعظم بینیٹ اور صدر محمد بن زید کے ساتھ اس منفرد رابطے کے منتظر ہیں۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق چاروں ممالک میں سے ہر ایک اپنے طور پر ایک تکنیکی مرکز ہے۔
نئے گروپ کی تشکیل کیسے ہوئی؟
چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ کی اکتوبر 2021 میں ورچوئل میٹنگ ہوئی تھی، جب ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اسرائیل کا دورہ کر رہے تھے۔ لیکن اس وقت اس اجلاس کو بین الاقوامی فورم برائے اقتصادی تعاون کا نام دیا گیا۔
ملاقات میں میری ٹائم سیکیورٹی، انفراسٹرکچر، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کو درپیش چیلنجز اور مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ہندوستان میں متحدہ عرب امارات کے سفیر احمد البنا نے نئے گروپ کو "مغربی ایشیائی کواڈ” قرار دیا ہے۔
جولائی میں صدر بائیڈن کی میزبانی میں ہونے والی میٹنگ پچھلی میٹنگ کا ہی ایک اپ گریڈ ورژن ہو گا، کیونکہ اس میں چاروں ممالک کے سربراہان مملکت شرکت کریں گے۔
‘آئی ٹو یو ٹو‘ بنانے کا مقصد کیا ہے؟
جب ان سے پوچھا گیا کہ نئے گروپ کا مقصد کیا ہے تو محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ اس کا مقصد ایسے معاہدوں اور شراکت داریوں کو دوبارہ قائم کرنا ہے جو پہلے موجود نہیں تھے یا مکمل طور پر استعمال نہیں کیے گئے تھے۔
نیڈ پرائس نے مجوزہ سربراہی اجلاس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "ہندوستان ایک بہت بڑی منڈی ہے۔” یہ اعلیٰ ٹیکنالوجی اور دیگر انتہائی ضروری اشیاء کی بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کا مرکز بھی ہے۔ لہٰذا بہت سارے ایسے شعبے ہیں جن میں یہ چاروں ممالک مل کر کام کر سکتے ہیں، چاہے وہ ٹیکنالوجی ہو، تجارت ہو، ماحولیات ہو، کوڈ نائنٹین ہو یا سکیورٹی ہو۔ ”
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ‘آئی ٹو یو ٹو‘ کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کو ابراہیمی معاہدے کے اہم فوائد میں سے ایک کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معمول کے تعلقات قائم ہوئے۔ ہندوستان کے پہلے ہی متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے ساتھ اچھے اور مستحکم تعلقات ہیں اور تینوں ممالک سہ فریقی سطح پر مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کے مطابق ‘آئی ٹو یو ٹو‘ سربراہی اجلاس میں فوڈ سیکیورٹی پر بات کی جائے گی، حالانکہ واشنگٹن نے بھارتی حکومت کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو گندم کی برآمدات معطل کرنے کے فیصلے پر تنقید بھی کی ہے۔مزیداہم خبریں پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : اہم خبریں