بھارت کی بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنفہ اروندھتی رائے کہتی ہیں کہ مسلمانوں کے گھروں اور کاروباروں کو خالصتاً تعزیری وجوہات کی بناء پر بلڈوز کرنے کا عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان ‘بہت ڈھٹائی سے ایک مجرم ہندو فاشسٹ ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے’ ۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران، وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت والی ہندوستانی ریاستوں میں حکام نے حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے کے شبہ میں مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے گھروں، دکانوں اور کاروباری مقامات کو بلڈوز کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اپنی انتخابی مہم میں اس پالیسی کو فخریہ انداز میں پیش کیا ہے۔
میرے ذہن میں، یہ اس لمحے کی نشان دہی کرتا ہے جب ایک گہرے نقائص سے بھری، کمزور جمہوریت ، کھلم کھلا اور ڈھٹائی سے، زبردست عوامی حمایت کے ساتھ ایک مجرم، ہندو فاشسٹ ریاست میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اب ہم پر ایسے غنڈوں کی حکمرانی نظر آتی ہے جو ہندو بھگوان کے طور پر تیار کیے گئے ہیں اور ان کی کتاب میں مسلمان عوام دشمن نمبر ایک ہیں۔
ماضی میں مسلمانوں کو قتل و غارت، لنچنگ، ٹارگٹ کلنگ، حراست میں قتل، جعلی پولیس مقابلے اور جھوٹے بہانوں سے قید کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ ان کے گھروں اور کاروباروں کو بلڈوز کرنا اس فہرست میں شامل ایک نیا اور انتہائی موثر ہتھیار ہے۔
جن طریقوں سے اس واقعہ کی اطلاع دی جا رہی ہے اور اس کے بارے میں لکھا جا رہا ہے، بلڈوزر کو ایک طرح کی انتقامی طاقت کے ساتھ جوڑا جارہا ہے۔ اپنے بڑے آہنی پنجوں کے ساتھ یہ خطرناک مشین جسے "دشمن کو کچلنے” کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اب اس مشین کو شیطانی طاقتوں کو کچلنے والے ایک افسانوی ہندو دیوتا کے مکینیکل، کامک سٹرپ ورژن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ نئی، بدلہ لینے والی، ہندو قوم کا طلسم بن گیا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنے حالیہ دورہ ہندوستان کے دوران ایک ایسے ہی بلڈوزر کے ساتھ پوز کر کے تصویر بھی کھنچوائی۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور وہ کس کی حمایت کر رہے ہیں۔ ورنہ کوئی سربراہ مملکت ریاستی دورے کے دوران بلڈوزر کے ساتھ تصویر بنانے جیسا عجیب و غریب کام کیوں کرے گا؟
سرکاری حکام کا اصرار ہے کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنا رہے ہیں اور محض غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ املاک کو منہدم کر رہے ہیں۔ جو کہ میونسپل کلین اپ مشن کی ایک قسم ہے، یہ استدلال، یقیناً، قائل کرنے کے لیے بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب مسلمانوں کا مذاق اڑانا اور ان میں دہشت پھیلانا ہے۔ کیونکہ حکام اور زیادہ تر ہندوستانی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر قصبے اور شہر میں زیادہ تر تعمیرات یا تو غیر قانونی ہیں یا نیم قانونی۔
بغیر کسی نوٹس، اپیل یا سماعت کے موقع کے بغیر خالصتاً تعزیری وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کے گھروں اور کاروباروں کو بلڈوز کرنے سے کئی چیزیں بیک وقت حاصل ہوتی ہیں۔
بلڈوزر کے دور سے پہلے، مسلمانوں کو سزا پُرتشدد ہجوم کی طرف سے اور پولیس کے ذریعے دی جاتی تھی ۔ تاہم جائیدادوں کو بلڈوز کرنے میں نہ صرف پولیس، بلکہ میونسپل حکام اور اب میڈیا بھی شامل ہے۔ اور ملک کی عدالتیں جو صرف دیکھ رہی ہیں لیکن مداخلت نہیں کرنا چاہتیں۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو بتانا ہے، ”تم اپنے طور پر اکیلے ہو، تمھارے لیے کوئی مدد نہیں آئے گی۔ آپ کے پاس اپیل کی کوئی عدالت نہیں ہے۔ ہر وہ ادارہ جو اس پرانی ختم ہوتی جمہوریت کے چیک اینڈ بیلنس کا حصہ تھا اب ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے جسے آپ ہی کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دوسری کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے حکومت مخالف مظاہرین کی املاک کو تقریباً اس طرح نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
مثال کے طور پر، 16 جون کو، بی جے پی حکومت کی فوج میں بھرتی کی نئی پالیسی سے مشتعل ہزاروں نوجوان پورے شمالی ہندوستان میں پرتشدد ہنگامے کر رہے تھے۔ انہوں نے ٹرینوں اور گاڑیوں کو جلا دیا، سڑکیں بلاک کر دیں اور ایک قصبے میں انہوں نے بی جے پی کا دفتر بھی جلا دیا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر مسلمان نہیں تھے تو ان کے گھر اور خاندان محفوظ رہیں گے۔
2014 اور 2019 کے دو عام انتخابات میں، بی جے پی نے یقین سے دکھایا ہے کہ اسے قومی انتخابات میں پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کی 200 ملین مسلم آبادی کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا، درحقیقت، ہم ایک طرح سے مسلمانوں کی حقِ رائے دہی سے محرومی کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ کیونکہ ایک بار جب آپ حق رائے دہی سے محروم ہوجاتے ہیں تو آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ غیر ضروری ہو جاتے ہیں۔ آپ کو استعمال اور زیادتی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وہی ہے جس کا اب ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔
یہاں تک کہ بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں نے عوامی طور پر ہر اس چیز کی توہین کی جو مسلمان سب سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں، پارٹی نے بھی ان بیانات اور حرکات کو اپنی حمایت سے محروم نہیں کیا ۔
ان گستاخیوں کے ردعمل میں مسلمانوں کی طرف سے نمایاں احتجاج کیا گیا ہے۔ احتجاج قابل فہم تھا، اور اب اس کے بعد بہت زیادہ تشدد اور بربریت کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں ، جیسا کہ لامحالہ ہوتا ہے، مظاہرین میں سے کچھ نے توہین رسالت کے قانون کا مطالبہ کیا ہے، جسے منظور کرنے میں بی جے پی شاید زیادہ خوش ہو گی، کیونکہ تب ہندو قوم پرستی کے بارے میں تقریباً تمام تبصروں کو بھی اس قانون کے تحت مجرمانہ فعل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام تنقید کو مؤثر طریقے سے خاموش کر دے گا اور ہندوستان جس سیاسی اور نظریاتی گڑھے میں گر رہا ہے اس کے بارے میں تمام ذہین تبصرے خاموش ہوجائیں گے۔ دیگر انفرادی مظاہرین میں شامل ایک اہم سیاسی جماعت، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے پھانسی کا مطالبہ کیا اور دوسروں نے سر قلم کرنے کا مطالبہ کیا – یہ سب مسلمانوں کے بارے میں ہر اس دقیانوسی تصور کی تصدیق کرتے ہیں جسے ہندو حق برقرار رکھنے کے لئے بہت محنت سے پھیلاتے ہیں ۔
مظاہروں کے بعد پولرائزیشن نے بی جے پی کی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔ توہین آمیز بیان دینے والی بی جے پی کے ترجمان کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے، لیکن اس کے کارکنوں نے انہیں کھلے عام گلے لگایا ہے۔ ان کا سیاسی مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
آج ہندوستان میں، سب کچھ ، ہر وہ ادارہ جسے بنانے میں برسوں لگے ہیں – تباہ ہو رہا ہے۔ یہ بیوقوفی نہیں تو اور کیا ہے۔ نوجوانوں کی ایک نئی نسل مکمل طور پر برین واش کرکے پروان چڑھ رہی ہے، ایسی نسل جس کا اپنے ملک کی تاریخ یا ثقافتی پیچیدگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت ، تقریباً 400 ٹی وی چینلز، لاتعداد ویب سائٹس اور اخبارات پر مشتمل میڈیا کی مدد سے ہندو مسلم تقسیم کے دونوں طرف نفرت پھیلانے والے کرداروں کی وجہ سے تعصب اور نفرت کا ایک مسلسل ڈھول پیٹتی رہتی ہے۔
سوشل میڈیا پر اب مسلمانوں کو نسل کشی کے لیے کھلے عام مطالبات کا سامنا کرنا معمول بن گیا ہے۔ ہم ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ ہم میں سے جو لوگ اس کے خلاف کھڑے ہیں اور خاص طور پر ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کو اس کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے، ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہم اس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ مشکل سوالات ہیں جن کے جوابات بھی اتنے ہی مشکل ہیں، کیوں کہ آج کے ہندوستان میں احتجاج چاہے کتنا ہی پرامن کیوں نہ ہو،اسے دہشت گردی کی کارروائی کے مترادف ایک گھناؤنا جرم ہی سمجھا جاتا ہے۔
مزید بین بین الاقوامی خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : بین الاقوامی خبریں