سعودی عرب کے میڈیا ریگولیٹری ادارے نے منگل کو کہا کہ خلیجی عرب ریاستوں نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی اسٹریمنگ کمپنی نیٹ فلکس خطے میں "اسلامی اور معاشرتی اقدار” کے خلاف جارحانہ سمجھے جانے والے مواد کو ہٹائے۔
ادارے نے مواد کی وضاحت نہیں کی لیکن ذکر کیا کہ اس میں بچوں کے لیے مواد شامل ہے۔ سعودی حکومت کے زیرانتظام الاخباریہ ٹی وی نے اس مسئلے پر بحث کرنے والے ایک پروگرام میں دھندلا ہوا اینیمیشن کلپ بھی دکھایا جس میں دو لڑکیوں کو گلے لگاتے دکھایا گیا تھا۔
فيديو | #نتفليكس تروج للشذوذ الجنسي للأطفال تحت غطاء سينمائي..
فهل سيحجب #Netflix في السعودية قريبا؟#نشرة_النهار#الإخبارية pic.twitter.com/kxu5zJ20en
— قناة الإخبارية (@alekhbariyatv) September 6, 2022
ریاض میں قائم جنرل کمیشن برائے آڈیو ویژول میڈیا کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مواد نے خلیج تعاون کونسل میں میڈیا کے ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے، جس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان، قطر اور کویت شامل ہیں۔
اگر نیٹ فلکس نے مواد کو نشر کرنا جاری رکھا تو "ضروری قانونی اقدامات کیے جائیں گے”، ادارے نے وضاحت کیے بغیر کہا۔ نیٹ فلکس نے فوری طور پر تبصرے کے لیے رائٹرز کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
متحدہ عرب امارات نے منگل کو نیٹ فلکس کے مواد کے حوالے سے اسی طرح کا ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ وہ آنے والے دنوں میں پلیٹ فارم کی نشریات کی پیروی کرے گا اور ملک میں "براڈکاسٹنگ کنٹرولز کے لیے اپنی وابستگی کا جائزہ لے گا”۔
متعدد مسلم اکثریتی ممالک میں ہم جنس تعلقات کو جرم قرار دیا جاتا ہے اور ماضی میں ان ممالک کے ریگولیٹرز کی طرف سے اس طرح کے تعلقات کو پیش کرنے والی فلموں پر پابندی عائد کی جا چکی ہے، جب کہ بعض اوقات فحش یا غیر قانونی منشیات کے استعمال والی فلموں کو سنسر کیا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور دیگر مسلم ریاستوں نے اس سال کے شروع میں والٹ ڈزنی پکسر کی اینی میٹڈ فیچر فلم لائٹ ایئر پر سینما گھروں میں نمائش پر پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ اس میں ہم جنس تعلقات کے کردار تھے۔
سعودی سرکاری ٹی وی نے نیٹ فلکس پر موجود اینیمیٹڈ شو ’جراسک ورلڈ: کیمپ کریٹاسیئس‘ کے چند دھندلے کلپس دکھائے ہیں جس میں دو نوعمر لڑکیاں ایک دوسرے سے محبت کرنے کا نہ صرف اعتراف کرتی ہیں بلکہ ایک دوسرے کا بوسہ بھی لیتی ہیں۔
الآخباریہ ٹی وی کی جانب سے بنائی گئی رپورٹ میں متنازع فلم کیوٹیز کی فوٹیج بھی شامل کی گئی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایک عبارت کے ذریعے نیٹ فلکس پر ’سنیما کے آڑ میں غیر اخلاقی پیغامات دینے اور بچوں کی صحت مند پرورش کو متاثر‘ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
الاخباریہ کی ویب سائٹ پر موجود ایک اور ویڈیو میں الزام لگایا گیا ہے کہ سٹریمنگ سروس (نیٹ فلکس) ’ہم جنس پرستوں پر ضرورت سے زیادہ توجہ مرکوز کر کے ہم جنس پرستی کو فروغ دے رہا ہے۔‘
اس چینل نے چند معروف شخصیات کے انٹرویو بھی لیے جنھوں نے نیٹ فلکس پر ایسے ہی الزامات عائد کرتے ہوئے حکام سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سعودی جنرل کمیشن برائے آڈیو ویژیول میڈیا اور خلیجی تعاون کونسل کی کمیٹی آف الیکٹرانک میڈیا آفیشلز کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نیٹ فلکس سے اس مواد کو ہٹانے کے لیے، بشمول بچوں کے لیے ہدایت کردہ مواد، اور قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے رابطہ کیا گیا تھا۔‘
بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’حکام ہدایات پر عمل درآمد کریں گے اور غیر اخلاقی مواد نشر ہونے کی صورت میں تمام ضروری قانونی کارروائی کی جائے گی۔
اگرچہ مسلم اکثریت والے ملک سعودی عرب میں جنسی رجحان یا صنفی شناخت کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے، تاہم شادی کے علاوہ جنسی تعلقات بشمول ہم جنس پرست تعلقات کی سختی سے ممانعت ہے۔
ملک کے اسلامی قوانین کے مطابق رضامندی سے جنسی تعلقات یا ہم جنس پرست تعلقات استوار کرنے کی سزا موت یا کوڑے ہیں اور اس سزا کا تعین انفرادی کیس کی نوعیت کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔
مزید بین الاقوامی خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : بین الاقوامی خبریں