پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی جو چار روزہ بھرپور عسکری تصادم پر منتج ہوئی، حیران کن طور پر ایک غیر اعلانیہ جنگ بندی پر ختم ہوگئی، جس کے پیچھے بین الاقوامی سفارت کاری کا گہرا کردار سامنے آیا ہے۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق، لڑاکا طیاروں، میزائلوں اور ڈرونز کے استعمال سے شروع ہونے والی یہ جھڑپیں بظاہر اچانک شروع ہوئیں اور اسی غیر متوقع انداز میں اختتام کو پہنچیں۔ اس جنگ بندی کے پس پردہ ایک ایسی تیز رفتار سفارتی مہم تھی جس نے دونوں ایٹمی طاقتوں کو مزید تصادم سے باز رکھا۔
بھارتی مؤقف کے مطابق، جنگ بندی کا بریک تھرو ہفتے کی سہ پہر اُس وقت ہوا جب بھارتی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل راجیو گھئی کو پاکستانی ہم منصب کی جانب سے براہ راست کال موصول ہوئی۔ اس کال میں دونوں فریقین نے فوری طور پر گولہ باری روکنے پر اتفاق کیا، اور بعد ازاں جنگ بندی کو مستقل بنانے کے لیے مزید بات چیت کا عندیہ دیا گیا۔ تاہم، پاکستان کی طرف سے یہ مؤقف سامنے آیا کہ اس نے جنگ بندی کی درخواست براہ راست نہیں بلکہ تیسرے فریق کے ذریعے دی، اور اہم ثالثی کردار امریکہ نے ادا کیا۔
سی این این کے مطابق، ہفتے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ نے دونوں ممالک کے درمیان مکمل جنگ بندی کروائی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، نائب صدر جے ڈی وینس اور چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے بھی دونوں ممالک کی قیادت سے الگ الگ رابطے کیے۔ پاکستان نے امریکی کردار کو سراہا جبکہ بھارت نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جنگ بندی براہ راست عسکری رابطے سے طے پائی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق، بھارت نے 8 اور 9 مئی کو جنگ بندی کی خواہش ظاہر کی تھی مگر پاکستان نے فوری جواب نہیں دیا۔ جب پاکستان نے موثر جوابی کارروائی کی تو بین الاقوامی دباؤ کے بعد، خاص طور پر امریکہ، چین اور سعودی عرب کی مداخلت کے نتیجے میں جنگ بندی طے پائی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر ٹرمپ کی "فعال قیادت” کا شکریہ ادا کیا جبکہ بھارت اس مؤقف پر قائم رہا کہ جنگ بندی خودمختار طریقے سے طے پائی۔
گوکہ دونوں ممالک کی بیانیے مختلف ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ عالمی دباؤ اور سفارتی رابطوں نے ایک ممکنہ طور پر تباہ کن جنگ کو روک دیا۔ فی الوقت جنگ بندی قائم ہے، البتہ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر معمولی خلاف ورزیوں کے الزامات بدستور جاری ہیں۔ اس واقعے نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی عسکری تصادم کو عالمی برادری صرف سفارتی دباؤ سے ہی روک سکتی ہے۔