لاہور (ایم وائے کے نیوز ٹی وی) خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی 12 سالہ مسلسل حکمرانی کے بعد کارکردگی کا جو نقشہ ابھر کر سامنے آیا ہے، وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع، انتظامی ناکامی اور مالی بے ضابطگیوں کا دلخراش منظرنامہ بھی پیش کرتا ہے۔ دریائے سوات میں آنے والے حالیہ سیلابی ریلے نے جہاں 10 قیمتی جانیں نگل لیں، وہیں پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی پر ایک بار پھر کڑا سوال اٹھا دیا ہے۔ متاثرہ فیملیز کا بروقت ریسکیو نہ کیا جانا اور انتظامی غفلت کا عالم یہ ہے کہ چند افسران کو معطل کرکے روایتی انکوائری کمیٹی بنا دی گئی، جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے، مگر نتائج ہمیشہ صفر رہتے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے خیبرپختونخوا میں ہر مون سون کے موسم میں قدرتی آفات کی پیشگی اطلاعات کے باوجود غیرقانونی تعمیرات، ناقص ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور حکومت کی سستی کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی رہی ہیں۔ تجزیہ نگار اس طرز عمل کو کسی قدرتی آفت سے زیادہ انتظامی قتل قرار دیتے ہیں۔ حالیہ واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پر اخلاقی دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ منصب سے مستعفی ہو جائیں۔ ماضی کی مثالوں پر نظر دوڑائی جائے تو 2019 میں جب بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان چترال میں سیلاب کے باعث پھنس گئی تھیں، تو فوری طور پر ہیلی کاپٹر بھیج کر ان کو نکالا گیا۔ مگر 2022 میں کوہستان میں مدد کے انتظار میں 6 نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دہرا معیار حکومتی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔
کارکردگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو گزشتہ 12 سالوں میں صوبائی حکومت کا زیادہ تر وقت کرپشن، اقرباپروری، سیاسی مفادات کے تحفظ اور عوامی فلاح کو پس پشت ڈالنے میں گزرا۔ نہ صرف پولیس اور ریسکیو سروسز بلکہ محکمہ انسداد دہشت گردی (CTD) اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کی بہتری کو بھی مسلسل نظرانداز کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ سانحے کے بعد صوبائی حکومت نے سارا ملبہ پی ڈی ایم اے پر ڈال دیا، حالانکہ پی ڈی ایم اے بذاتِ خود حکومتِ خیبرپختونخوا کے ماتحت ادارہ ہے اور مجموعی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی ذمہ داری اسی کے سپرد ہے۔
مالی بدعنوانی کے متعدد بڑے کیسز بھی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی شفافیت کے دعوؤں کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔ بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ بے ضابطگیاں، محکمہ خوراک کے ایک وزیر کی جانب سے 450 ملین روپے کی زمین کی مشکوک لیز، گندم کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی، اور ڈیرہ اسماعیل خان کی میونسپل اتھارٹی میں دکانوں و ہالز کی غیر قانونی لیزنگ جیسے کیسز سامنے آئے۔ خود سابق وزیر برائے ورکس اینڈ کمیونیکیشن، شکیل احمد خان نے اپنی وزارت چھوڑتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ صوبائی حکومت میں کرپشن "انتہائی گہری جڑیں” رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے کرپشن کے خلاف آواز بلند کی تو انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ مزید یہ کہ 2022 میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا کی CTD اپنے بجٹ کا صرف 4 فیصد آپریشنز پر خرچ کرتی ہے جبکہ 96 فیصد تنخواہوں اور الاؤنسز میں صرف ہوتا ہے۔ محکمہ میں تربیت یافتہ عملے کی کمی اور جدید سازوسامان کا فقدان بھی ایک خطرناک خلا کو ظاہر کرتا ہے۔