واشنگٹن (ایم وائے کے نیوز) اگر آپ آئس کریم یا دیگر پراسیسڈ اشیاء کے شوقین ہیں، تو یہ خبر آپ کو چونکا سکتی ہے۔ تازہ ترین سائنسی مطالعات سے انکشاف ہوا ہے کہ آئس کریم سمیت ہزاروں فوڈ پراڈکٹس میں استعمال ہونے والے ایملسیفائرز ہماری آنتوں، معدے، اور مجموعی صحت کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر آئس کریم کو پگھلنے سے روکنے والا کیمیکل پولی سوربیٹ 80 سرِفہرست ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایملسیفائرز کھانے کی اشیاء میں ساخت، مکسنگ اور شیلف لائف بڑھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، مگر اب تحقیق سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ یہ اجزاء انسانی جسم کے مائیکروبایوم (آنتوں میں موجود مفید بیکٹیریا) کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ فرانس کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ سے وابستہ بینواٹ چیسنگ کا کہنا ہے کہ "اب ہمارے پاس کافی شواہد ہیں کہ یہ کیمیکل انسانی مائیکروبایوٹا کے لیے نقصان دہ ہیں، اور ہمیں فوری طور پر ان کا استعمال روک دینا چاہیے۔”
محققین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ ایملسیفائرز نہ صرف آنتوں کی اندرونی دیوار کو متاثر کرتے ہیں، بلکہ جسم میں سوزش پیدا کرتے ہیں، جو بعد ازاں کروہن کی بیماری، السریٹو کولائٹس، میٹابولک عوارض، کینسر اور دل کے امراض جیسے مہلک مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق، یہ کیمیکل خاص طور پر الٹرا پروسیسڈ کھانوں میں عام ہیں، جنہیں دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں لوگ استعمال کرتے ہیں۔
مزید خطرناک بات یہ ہے کہ ایملسیفائرز مختلف ناموں سے ہزاروں مصنوعات میں شامل کیے جاتے ہیں، جن میں کیریجینن، مالٹوڈیکسٹرین، اور زینتھن گم جیسے نام شامل ہیں، اور ان میں سے بعض ایف ڈی اے کی موجودہ نگرانی کی فہرست میں بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صارفین ان سے بچنے میں اکثر ناکام رہتے ہیں، کیونکہ یہ کیمیکل کئی بار "قدرتی” یا "بغیر نقصان دہ اجزاء” کے دعوے والی اشیاء میں بھی موجود ہوتے ہیں۔
سابق ایف ڈی اے کمشنر مارٹن میکری کا کہنا ہے کہ مائیکروبایوم پر پڑنے والے اثرات کو ایف ڈی اے نے ماضی میں کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا، اور اب وقت آ گیا ہے کہ پالیسی ساز ادارے اس طرف توجہ دیں۔ کچھ مریضوں نے ایملسیفائر سے پاک غذا اختیار کرنے کے بعد اپنی علامات میں نمایاں بہتری کی اطلاع دی ہے، خاص طور پر آنتوں کی سوزش یا حساسیت کے شکار افراد نے۔
اگرچہ پراسیسڈ فوڈ بنانے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم کنزیومر برانڈز ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام اشیاء سخت سائنسی جانچ کے بعد استعمال کی جاتی ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جانچ مائیکروبایوم کے نقطہ نظر سے ناکافی ہے۔ مزید تحقیق کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ ان اجزاء کے طویل مدتی اثرات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ Haagen-Dazs جیسی کچھ کمپنیاں اپنی آئس کریم میں ایملسیفائرز کا استعمال نہیں کرتیں، جبکہ اسی کمپنی کے تحت چلنے والے دیگر برانڈز یہ کیمیکل استعمال کرتے ہیں۔ اس تضاد نے صارفین میں مزید تشویش پیدا کر دی ہے کہ "صاف” خوراک کے نام پر بھی ان کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے