پنجاب حکومت نے صحت کے شعبے میں ایک تاریخی اور انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے صوبے بھر کے 315 دیہی مراکز صحت کو باقاعدہ ہسپتالوں کا درجہ دے دیا ہے۔ ان تمام مراکز کو "مریم نواز ہسپتال” کا نام دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد دیہی علاقوں میں بسنے والے عوام کو شہروں جیسے جدید اور معیاری طبی سہولیات فراہم کرنا ہے تاکہ انہیں علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ نہ کرنا پڑے۔
ان مراکز کو اپ گریڈ کرکے مکمل ہسپتالوں میں تبدیل کیا گیا ہے، جہاں زچگی کے دوران نارمل اور پیچیدہ ڈلیوری، چھوٹے بڑے آپریشن، جنرل سرجری، چائلڈ اسپیشلسٹ، آنکھ، ناک، کان، گلا، ریڈیالوجی، پتھالوجی اور اینستھیزیا سمیت تمام بنیادی و اہم سہولیات میسر ہوں گی۔ ہر ہسپتال میں ڈاکٹرز، سرجن، گائناکالوجسٹ، لیب ٹیکنیشنز اور دیگر متعلقہ عملہ تعینات کیا جائے گا۔ ان مراکز کو جدید مشینری اور لیب سہولیات سے بھی آراستہ کیا جا رہا ہے تاکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے عوام کو ہر ممکن علاج ان کے قریبی علاقے میں ہی میسر آ سکے۔
حکومت نے ان ہسپتالوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تمام مریم نواز ہسپتال نجی شعبے کے کنٹریکٹرز کے تحت چلائے جائیں گے۔ ہر کنٹریکٹر کو ایک مخصوص ماہانہ بجٹ دیا جائے گا جس کے اندر رہتے ہوئے وہ عملے کی تنخواہیں، ادویات، بجلی، گیس، پانی کے بل، لیبارٹری ٹیسٹس، ایکسرے اور دیگر تمام اخراجات خود برداشت کرے گا۔ اس حوالے سے حکومت نے ہر ہسپتال کے لیے 40 سے 45 لاکھ روپے کا ماہانہ بجٹ مختص کیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ اس رقم سے زیادہ حکومت کسی قسم کی اضافی مالی معاونت فراہم نہیں کرے گی۔
اس منصوبے کے آغاز سے پہلے ان مراکز کی مکمل تزئین و آرائش پر تقریباً 15 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ ان میں عمارتوں کی مرمت، نئی مشینری کی فراہمی اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری شامل ہے۔ اس کے بعد اب انہیں ٹھیکے پر دینا ایک بڑا فیصلہ ہے، جس پر کچھ حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر یہ مراکز نجی انتظامیہ کے سپرد ہی کرنے تھے تو ان پر اتنی بڑی سرکاری رقم کیوں خرچ کی گئی؟ اس سوال کے جواب میں حکومت کا موقف ہے کہ ان ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنا ضروری تھا تاکہ نجی شعبہ بہتر معیار کی خدمات فراہم کر سکے۔
وزیر صحت خواجہ عمران نذیر کا کہنا ہے کہ اگر یہ ماڈل کامیاب ہوا تو پنجاب کے صحت کے شعبے میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔ ان کے مطابق بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہو جائے گا کیونکہ 80 فیصد سے زائد مریضوں کا علاج یہی دیہی ہسپتال کر سکیں گے۔ انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی سرکاری ملازم کو برطرف نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی نجی کنٹریکٹر کو کسی ملازم کی کارکردگی پر اعتراض ہو تو وہ اسے محکمہ صحت کے حوالے کر سکتا ہے، اور محکمہ صحت اسے کسی دوسرے مرکز میں تعینات کرنے کا پابند ہوگا۔
یہ نظام نہ صرف طبی سہولیات کو بہتر بنانے میں مدد دے گا بلکہ مالی بچت کا ذریعہ بھی بنے گا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پرانے نظام کے تحت ہر مرکز صحت پر 75 سے 80 لاکھ روپے ماہانہ خرچ آتا تھا، لیکن نئے آؤٹ سورس ماڈل سے یہ خرچ کم ہو کر 40 سے 45 لاکھ روپے رہ جائے گا، جس سے حکومت کو ہر ماہ تقریباً 3 ارب روپے کی بچت ہو گی۔
مجموعی طور پر پنجاب حکومت کا یہ قدم صحت عامہ کی بہتری کی سمت ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ ماڈل کامیاب ہوتا ہے تو یہ نہ صرف دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کے نئے باب کھولے گا بلکہ صحت کے شعبے میں ایک دیرپا، مستحکم اور خودکار نظام کے قیام کا باعث بھی بنے گا۔