اسلام آباد: پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی نیوز چینل کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں بھارت کے حالیہ رویے، خطے کی صورتحال اور پاکستان کے موقف پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت سیاسی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہیں اور ایسی صورتحال میں ان سے کسی بھی غیر ذمہ دارانہ اقدام کی توقع کی جا سکتی ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے حالیہ کشیدگی کے دوران انتہائی سنجیدگی، ضبط و تحمل اور حکمت عملی سے کام لیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے بھارت کے کسی ممکنہ ردعمل کو بھانپتے ہوئے چار دن انتظار کیا تاکہ ممکنہ طور پر بھارت کو بات سمجھ آ جائے اور حالات مزید بگڑنے سے بچ جائیں۔ تاہم، جب بھارت نے جارحانہ رویہ جاری رکھا تو پاکستان نے فیصلہ کن انداز میں ردعمل دیا جس کے نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔
وزیر دفاع نے دعویٰ کیا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے کسی تنازع میں سائبر وارفیئر کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ ان کے مطابق پاکستان کی سائبر ٹیموں نے انتہائی مہارت اور پیشہ ورانہ انداز میں بھارت کے اہم ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مفلوج کر دیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں بھارتی نظام میں نمایاں خلل پیدا ہوا، جس کا اعتراف خود بھارتی ذرائع ابلاغ نے بھی کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لڑائی میں صرف روایتی جنگی ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے گئے بلکہ پاکستان نے جدید حربوں کے ذریعے بھارت کو کئی محاذوں پر نقصان پہنچایا۔ خواجہ آصف نے اس موقع پر دعویٰ کیا کہ پاکستان کی فضائیہ نے پانچ بھارتی جنگی طیارے اور ایک یو اے وی مار گرایا، جو نہ صرف عسکری بلکہ سفارتی سطح پر بھی ایک بڑی کامیابی تصور کی جا رہی ہے۔
وزیر دفاع نے گفتگو کے دوران اس بات پر بھی زور دیا کہ مودی سرکار اب کشمیر جیسے حساس مسئلے پر بات چیت پر آمادہ نظر آ رہی ہے، جو پاکستان کے سفارتی دباؤ اور مؤثر پالیسی کا نتیجہ ہے۔ ان کے بقول، کچھ عرصہ پہلے تک بھارت مسئلہ کشمیر پر کسی بھی بات چیت سے انکاری تھا لیکن اب عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی دباؤ اور پاکستان کی کامیاب حکمت عملی کے باعث صورتحال میں تبدیلی آ رہی ہے۔
خواجہ آصف نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر بھارت نے دوبارہ کسی قسم کی جارحیت کی کوشش کی تو پاکستان کی جانب سے جواب صرف میدان جنگ تک محدود نہیں ہو گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کا ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سمیت دیگر اہم دوست ممالک پاکستان کے مؤقف کے حامی تھے اور انہی کے مشورے اور حمایت کی بنیاد پر پاکستان نے سیز فائر کو ترجیح دی تاکہ کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔