اسلام آباد (ایم وائے کے نیوز ٹی وی) سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے موجودہ بجٹ کو معاشی نظام کی ناکامی کا ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بجٹ کسی بھی طبقے کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ ملک کا موجودہ نظام اب مزید نہیں چل سکتا۔
اسلام آباد میں پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ میں کوئی سنجیدہ اصلاحات نہیں کی گئیں بلکہ یہ محض ایک اکاؤنٹنگ دستاویز ہے، جس کا مقصد حکومت کے اپنے اخراجات پورے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نئے ٹیکس لگا کر اور قرضے لے کر اپنا نظام چلا رہی ہے، جبکہ معیشت کی بہتری یا عام آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی اس بجٹ سے ممکن نہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے، شرح سود بلند ترین سطح پر ہے، بجلی اور گیس کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، اور ان سب کا بوجھ براہ راست عوام پر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار برسوں میں ٹیکسوں میں شدید اضافہ کیا گیا ہے، جبکہ حکومت نے اپنے اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی، بلکہ وزرا اور اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ جب عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، تو حکمران اپنی مراعات بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ صرف تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ پرتعیش اخراجات بھی بدستور جاری ہیں۔ مرغی کے چوزے پر 10 روپے فی کس ٹیکس لگا دیا گیا ہے، جس سے حکومت کو اربوں روپے آمدن کی امید ہے، جبکہ پنشنرز پر ٹیکس بڑھا کر ان کی زندگی مزید اجیرن کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے خود پر خرچ کم کرنے کے بجائے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔
چینی کے بحران پر گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کے دور میں جب چینی کی قیمت 130 روپے تھی تو ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی برآمد کی گئی، اور اب جب چینی 210 روپے کلو ہے تو ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی درآمد کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی غریب کی جیب پر ڈاکا ہے جس سے شوگر ملز مالکان کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیاسی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں جو منصوبے رکھے گئے ہیں ان میں ایم این ایز اور ایم پی ایز کے لیے مختص اسکیموں کا حصہ سب سے زیادہ ہے تاکہ سیاسی وفاداریاں خریدی جا سکیں، جبکہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک کا آدھا حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور چار کروڑ لوگ شدید غربت کا شکار ہیں۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی تمام پالیسیاں سرمایہ کاری کے خلاف جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 62 فیصد ٹیکس اگر کمپنیوں پر لگا دیا جائے گا تو وہ کیسے ترقی کریں گی؟ جب صنعتیں ترقی نہیں کریں گی تو روزگار بھی پیدا نہیں ہوگا اور معیشت کا پہیہ بھی جام ہو جائے گا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ٹیکس نظام مکمل طور پر غیر منصفانہ ہے، اس کی اصلاح ناگزیر ہے، ورنہ ملک میں معاشی عدم استحکام بڑھتا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وفاق مسلسل خسارے میں جا رہا ہے، جبکہ سود کی ادائیگیاں دفاعی اخراجات سے بھی بڑھ چکی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ رواں مالی سال کے دوران صرف سود کی مد میں 8 ہزار ارب روپے خرچ ہوں گے۔
سابق وزیراعظم نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اخراجات میں کٹوتی کرے، اصلاحات لائے، ایف بی آر کو شفاف بنائے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرے تاکہ ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو سکے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک سے سرمایہ تیزی سے باہر نکل جائے گا اور عوام کے لیے حالات مزید ابتر ہو جائیں گے۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی یہ پریس کانفرنس موجودہ حکومت پر ایک سنگین الزامنامہ تھی، جس میں انہوں نے معیشت، بجٹ، ٹیکس نظام اور عوامی بہبود کے تمام پہلوؤں پر حکومت کو ناکام قرار دیا۔ ان کا دو ٹوک مؤقف ہے کہ "یہ سسٹم اب مزید نہیں چل سکتا” اور مکمل اصلاحات کے بغیر پاکستان کے معاشی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔