نئی دہلی/بیجنگ: بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی ایک اور بڑا جھٹکا سہہ گئی ہے، کیونکہ چین نے ایک بار پھر متنازعہ علاقے اروناچل پردیش کو اپنا حصہ قرار دے کر بھارت کی جغرافیائی خودمختاری کو براہِ راست چیلنج کر دیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ نے اروناچل پردیش کے متعدد علاقوں کو نئے چینی نام دے کر اسے ’’زَنگ نان‘‘ یعنی ’’جنوبی تبت‘‘ قرار دیا ہے، جبکہ بھارت نے اس اقدام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے "زمینی حقیقت سے انکار” قرار دیا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اپنے بیان میں کہا کہ صرف نام تبدیل کرنے سے حقیقت نہیں بدلی جا سکتی، اور اروناچل پردیش بھارت کا اٹوٹ اور ناقابلِ تقسیم حصہ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مگر سفارتی ماہرین اس بیان کو علامتی قرار دے رہے ہیں، کیونکہ چین نہ صرف زمینی دعووں میں مسلسل سرگرم ہے بلکہ عالمی رائے عامہ کو بھی بدلنے کی منظم کوششیں کر رہا ہے۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں بھارت اور چین کے درمیان مغربی ہمالیہ میں گزشتہ چار سال سے جاری فوجی کشیدگی کے خاتمے پر اتفاق ہوا ہے، اور دونوں ممالک نے افواج کے انخلا کا اعلان کیا ہے۔ مگر دوسری جانب، چین کی تازہ کارروائی نہ صرف مودی حکومت کی سفارتی کامیابیوں پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے بلکہ بھارت کے علاقائی اثر و رسوخ کو بھی چیلنج کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ چین اس سے قبل 2023 میں بھی اروناچل پردیش کے 30 سے زائد مقامات کے نام تبدیل کر چکا ہے، جنہیں بھارت نے "بے معنی اور غیر مؤثر” قرار دیا تھا۔ تاہم چین اپنے دعوے میں مسلسل سخت رویہ اختیار کرتا آ رہا ہے اور اسے جنوبی تبت کا لازمی حصہ سمجھتا ہے۔
علاقائی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کشیدگی صرف سرحدی تنازع تک محدود نہیں بلکہ خطے میں اثر و رسوخ اور عالمی سطح پر طاقت کے توازن کی جنگ کا حصہ ہے۔ چین کی یہ حکمت عملی بھارت کو داخلی و خارجی سطح پر دفاعی پوزیشن میں دھکیلنے کی کوشش ہو سکتی ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب پاکستان کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے بعد سیز فائر ہوا ہے اور مودی حکومت پہلے ہی سخت تنقید کی زد میں ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان 3,800 کلومیٹر طویل سرحد پر مستقل تنازعہ ہے، اور 1962 کی جنگ سے لے کر 2020 کی گلوان وادی کی خونی جھڑپوں تک یہ سرحد مسلسل کشیدگی کی علامت رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں اگرچہ بظاہر سفارتی بات چیت جاری ہے، مگر چین کا حالیہ اقدام حالات کو ایک بار پھر دھماکہ خیز موڑ کی طرف لے جا سکتا ہے۔
مودی حکومت جسے داخلی محاذ پر بھی سیاسی دباؤ کا سامنا ہے، اب بیک وقت دو ایٹمی طاقتوں چین اور پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی میں گھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مودی حکومت اس دو طرفہ دباؤ کا مؤثر جواب کیسے دے گی؟ اور کیا چین کی نئی حکمت عملی خطے میں کوئی نیا سفارتی محاذ کھولنے جا رہی ہے؟ ان سوالات کا جواب آنے والے دنوں میں مزید واضح ہو گا۔