پشاور ہائیکورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کر دیا گیا، جس نے عدلیہ کی آزادی اور عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق ایک نئی قانونی بحث چھیڑ دی ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس ارشد علی اور جسٹس خورشید اقبال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی، جس میں درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم نہ صرف عوام کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہے بلکہ عدلیہ کی خودمختاری کو بھی چیلنج کرتی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ترمیم آئین کے اس بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے جو شہری آزادیوں اور عدالتی خودمختاری کو یقینی بناتا ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ اس ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ یہ آئینی اصولوں اور عوامی مفاد کے منافی ہے۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ اس وقت 26ویں آئینی ترمیم کے تمام کیسز کو یکجا کرکے سماعت کر رہی ہے، اور اس سلسلے میں ایک فل بینچ تشکیل دیا جا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالت پہلے ہی اس حساس آئینی معاملے پر غور کر رہی ہے، لہٰذا زیر التوا کیسز پر کسی بھی ہائیکورٹ کی کارروائی قانونی تقاضوں کے منافی ہو سکتی ہے۔
جسٹس ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ جب ایک معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہو تو زیریں عدالتیں اس میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔ عدالت نے یہ واضح کیا کہ چونکہ 26ویں آئینی ترمیم کا کیس پہلے ہی اعلیٰ عدلیہ میں سنا جا رہا ہے، لہٰذا پشاور ہائیکورٹ اس پر کسی قسم کی کارروائی نہیں کر سکتی۔ عدالت نے معاملے کو ملتوی کرتے ہوئے یہ عندیہ دیا کہ اب مزید پیشرفت سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی ممکن ہوگی۔
یاد رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے دائرہ اختیار اور بنیادی حقوق سے متعلق چند حساس شقوں میں رد و بدل کیا گیا تھا، جس پر نہ صرف قانونی ماہرین بلکہ سول سوسائٹی کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے