ملک کو درپیش موجودہ حالات میں تحریکِ انصاف کی حکومت کو سیاسی اور معاشی میدانوں میں سخت ترین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن جماعتوں کا پی ڈی ایم کی صورت میں اکٹھ حکومت کے لئے سخت آزمائش ہے تو دوسری طرف ہوشربا مہنگائی نے عوام اور حکومت کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں، اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف تحریک میں مہنگائی کے ایشو کو زبردست طریقے سے اچھال کر عوام کو غصہ اور اشتعال دلا رہی ہے وہ اس لئے کہ حکومت نے اس ہوشربا مہنگائی کا اعتراف کر لیا ہے۔ ابھی کچھ روز پہلے ہی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومتی وزراء مہنگائی کی وجہ سے اپنی ہی حکومت پر پھٹ پڑے اور عوامی سطح پر زبردست دباوّ کا بار بار تذکرہ کرتے رہے۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی میں کمی تک چین سے نہیں بیٹھوں گا یہ میرا عزم ہے۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں ضرور اضافہ ہوا ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی ہے لیکن مہنگائی کی یہ شرح اب بھی گزشتہ دور حکومت سے کم ہے، گزشتہ حکومتوں نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا اسے ٹھیک کرنے کے لئے وقت درکار ہے۔
حکومت کو کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو لگام ڈالنے کے لئے اقدامات اُٹھانا ہوں گے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت غربت کے خاتمے کا نعرہ لگا کر ہی برسر اقتدار آئی تھی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دال، چاول، مرچ، مصالحہ اور دیگر کچن اشیاء کی قیمتوں میں دس تا تیس روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ مرغی کا گوشت اور انڈوں کی روز بروز بڑھتی قیمتیں الگ مسئلہ ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے قاعدگی حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے تاکہ شہریوں کو کسی بھی بحران یا دباوّ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جب ذمہ دار ادارے یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتے اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بازار کو کنٹرول کرنے والی طاقتوں پر چھوڑ دیتے ہیں تو اسکا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلب اور رسد کے زیرِ اثر یا مصنوعی بحران کے نتیجے میں قیمتوں کو بڑھنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہمارے ملک کا ایک اور بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ لوگوں کی قّوت خرید اس حساب سے نہیں بڑھ رہی جس تیزی سے خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اس نتیجے میں سب سے بڑی ضرب خوراک پر ہی لگتی ہے۔ ہمارے ملک میں وسیع پیمانے پر شہریوں میں اجزائے خوراک کی کمی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خوراک کو کم کر دیا جاتا ہے جس سے خوراک کی کمی بیماریوں میں اضافے اور جسمانی قوت میں کمی کی صورت میں سامنے آتی ہے جبکہ کم خوراک سے بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما بھی شدید متاثرہو رہی ہے۔
لہذاحکومت کو چاہیے کہ چور ڈاکووّں کو پکڑنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے عفریت کو روکنے کی بھی کوئی سبیل کرئے۔
عالمی اداروں نے حکومت کی جن خرابیوں کی طرف اشارہ کیا ہے انکا سدِباب کیا جائے کیونکہ اب یہ کہنا بے سود ہو گا کہ پچھلی حکومتوں نے لوٹ مار اور کرپشن اور منی لانڈرنگ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جو ہوا وہ الگ معاملہ ہے اور عدالتوں میں مقدمات زیرِ التواء ہیں۔
حکومت مہنگائی کے اس بے قابو سیلاب کے آگے بند باندھ کر عوام کو فوری ریلیف دے اور اسکے ساتھ ساتھ معیشت کی بحالی پر توجہ مرکوز کئے رکھے تو بہتری کے اسباب پیدا کئے جا سکتے ہیں۔
بقلم: کاشف شہزاد