ہماری بد قسمتی ملاحظہ کیجئے جب مُلک میں کپاس تھی تب ٹیکسٹائل انڈسٹری بند تھی اور جب ٹیکسٹائل اںڈسٹری مکمل کپیسٹی پر کام کر رہی ہے تو کپاس نہیں ہے۔ وجہ یہ نہیں ہے کہ بیچ دی گئی بلکہ وجہ یہ ہے کہ کسان نے کپاس لگائی ہی نہیں۔ ہماری فی ایکٹر پیداوار ہی اتنی کم ہے کہ اچھے ریٹ پر بیچ کر بھی خرچے پورے نہیں ہوتے۔ حالانکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی کپاس کو بھی وہی ریٹ مل رہا ہے جو چین یا بنگلہ دیش کو ملتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا لیکن تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ٹیکسٹائل کو جو رعایت دی گئی ہے اس نے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی کپاس کی قیمت کو دُنیا کے مقابلے پر کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ پیداوار بڑھانے کے جو طریقے ہیں ان پر کام نہیں کیا گیا جس سے ہمیں کپاس درآمد کرنا پڑی۔ اب ایسی برآمدات کا کیا فائدہ جن کا انحصار درآمدات پر ہو۔
کراچی کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباٙٙ چار بلین ڈالر کی کپاس برآمد کرنا پڑے گی جبکہ پاکستان ٹیکسٹائل کی سالانہ برآمدات تقریباٙٙ بارہ بلین ڈالر ہے اگر درآمدات کو نکال دیا جائے تو یہ آٹھ بلین ڈالر کی برآمدات بنتی ہیں۔ پاکستان کو اس وقت 34.18 فیصد کپاس کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ اس سال کا ہدف تقریباٙٙ 10.90 ملین بیلز تھا لیکن 7.7 ملین بیلز کی پیداوار حاصل ہو سکی۔ یہ تحریک انصاف کے دور کا مسئلہ نہیں بلکہ پچھلی حکومتیں بھی کپاس کی پیداوار پر توجہ نہیں دے سکیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے پچھلے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان کو
9.9
ملین بیلز کی کمی کا سامنا رہا اس کے علاوہ زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی شعبے کو صحیح معنوں میں صنعت کا درجہ ہی نہیں دیا گیا جس وجہ سے پاکستان کو ان سب مسائل کا سامنا ہے، اس لئے جب تک ترجیحات کی سمت درست نہیں ہوگی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔ اس شعبے کو اپنے پیروّں پر کھڑا کرنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بڑے ٹیکسٹائل گروپس کو پابند کرئے کہ کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے ماہرین کی ٹیم کو پاکستان بُلائے اس کے ساتھ ساتھ بیج کی کوالٹی کو بہتر بنایا جائے یا اگلے سیزن کے لئے ایسا بیج حاصل کیا جائے جس کی پیداوار بہترین ہو۔ اس حوالے سے چین پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔ چائنہ کپاس اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں دُنیا میں پہلے نمبر پر ہے، دوست ملک سے فائدہ اُٹھانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اگر ہماری زراعت پر توجہ نہ دی گئی تو اگلے سال کپاس کی درآمد چار بلین ڈالر سے بڑھ کر آٹھ بلین ڈالر تک جا سکتی ہے جس سے ڈالر کی قیمت میں عدم توازن بھی بڑھ سکتا ہے۔
اس کے ساتھ اگر بات کی جائے ڈالر کی تو پچھلے دو ہفتوں سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت مسلسل کم ہو رہی ہے جو کہ ملک کے لیے بہت خوش آئند بات ہے۔ اگر ایک سال پہلے کے اعدادوشمار سے موازنہ کیا جائے تو پچھلے سال مارچ میں ڈالر کی قیمت تقریباٙٙ 157 روپے تھی جو کہ اس سال مارچ میں 156 روپے ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں بھی روپے نے اچھی پرفامنس دِکھائ ہےاسکی وجہ قرضوں میں ملنے والا ریلیف، روشن ڈیجیٹل اکاوّنٹ کی کامیابی، برآمدات میں اضافہ کنسٹرکشن سیکٹر کھلنے سے ڈالر میں سرمایہ کاری کرنے کے رجحان میں کمی اور منی لانڈرنگ روکنے کے لئے اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے نفاذ کی کوششیں شامل ہیں۔ پاکستان میں اصل میں بلیک اور وائٹ اکانومی ایک دوسرے کےمدِ مقابل چلتی ہیں آپ کسی ایک پر تکیہ نہیں کر سکتے۔ حکومت چاہے یا نہ چاہے پھر بھی بلیک منی رکھنے والوں کو سہولتیں دینا پڑتی ہیں۔
ڈالر کی منی لانڈرنگ روکنا ہمیشہ حکومتوں کے لئے ایک چیلنج رہا ہے، پاکستان میں اس ایشو کو بہترین انداز میں حل کرنے کے لئے کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی گئی جو کہ منی لانڈرنگ کو روکنے کے لئے ایک احسن قدم ہے۔ ماضی میں لگائے گے ٹیکسز کی بدولت رئیل اسٹیٹ کا کاروبار تقریباٙٙ ختم ہو چکا تھا، بہت سی پراپرٹیز اپنی اصل قیمت سے بھی نیچے آ گئی تھیں، انویسٹرز نے پیسہ نکال لیا تھا جس سے یا تو وہ پیسہ اسمگل ہو کر دُبئی جا رہا تھا یا جو لوگ کاروبار کرنا چاہتے تھے اُنہوں نے بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل سیکٹر میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی۔ چونکہ بنگلہ دیش دُنیا کا دوسرا بڑا ٹیکسٹائل ایکسپورٹر مُلک ہے اور ہر دوسرا بنگالی اس کاروبار سے منسلک ہے اس لئے ہمارے سرمایہ کاروں کو یہاں منافع نظر آیا تو اُنہوں نے اپنے ملک سے پیسہ اُٹھایا اور بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل سیکٹر میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ حکومت نے اپنے مُلک کے سرمائے کو دوسرے مُلک میں لگنے سے روکنے کے لئے کنسٹرکشن ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی جو کہ کامیاب ہوگئی۔ لیکن حکومت کے ہر اچھے فیصلے میں سب سے بڑی رکاوّٹ آئی ایم ایف ہے۔ پاکستان تقریباٙٙ ڈیڑھ سال سے اس کے چنگل میں ایسا پھنسا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسکو ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں، جیسا کہ اگلی قسط کی ادائیگی سے پہلے آئی ایم ایف نے شرط رکھی ہے کہ پاکستان
140
بلین روپے کی ٹیکس رعایت مختلف مدآت میں ختم کرئے جو کہ پاکستانی حکومت اور پاکستانیوں کے لئے ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔ ان رعایات کے ختم ہونے سے ٹیکس آمدن میں تو یقیناٙٙ اضافہ ہوگا لیکن حکومت کو سیاسی سطح پر جو نقصان ہوگا وہ ناقابلِ تلافی ہو سکتا ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد