ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کا آغاز ہو چکا ہے جس میں برطانیہ سے آیا وائرس اب سرِ فہرست اور نمایاں ہے۔ یہ وائرس دن بدن تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے جس سے اموات کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ گزرے سال سے اب تک کورونا وائرس جیسے موذی مرض نے دُنیا بھر کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور پاکستان سمیت پوری دُنیا کے عوام اس بیماری کے ساتھ جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ یہ وائرس پچھلے سال میں لاکھوں زندگیاں نگل گیا اور اس موذی مرض کی تیسری لہر کے سائے اب بھی پاکستان سمیت دُنیا بھر پر منڈلا رہے ہیں اس وائرس نے بڑی بڑی سُپر پاور طاقتوں کے عوام اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور آئے روز کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جو عوام میں موت کے خطرے کا خوف بنا ہوا ہے۔
کورونا وائرس کی پہلی تباہی میں این سی او سی کی رپورٹ کے مطابق اس وباء کے باعث مردوں کی شرح اموات زیادہ رہیں ان اموات میں تقریباٙٙ 68 فیصد صرف مرد شامل تھے جبکہ خواتین کی شرح اموات 32 فیصد تھی۔ اسی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں 6 لاکھ 2 ہزار افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے جسمیں 13 ہزار 537 اموات اسکی وجہ سے ہوئیں۔
دراصل یہ سنگین صورتِ حال ہماری قومی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہے کیونکہ سرکاری اور عوامی سطح پر ہم نے بحثیت قوم جس طرح ایس او پیز کو نظر انداز کرنے کی روش اختیار کی اسی روش نے آج ہمیں یہ دن دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اب ہم خطرے کی لائن عبور کر چکے ہیں کیونکہ ہم نے پُر ہجوم عوامی مقامات، اسپتال، سرکاری و نجی دفاتر اور تعلیمی اداروں میں اختیاطی تدابیر کو یکسر نظر اندار کر دیا ہوا ہے۔ اسی لا پرواہی اور بے اختیاطی کی وجہ سے ہمیں ایک بار پھر لاک ڈاوّن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو کہ اب مُلکی معیشت کے لئے تباہ کُن ثابت ہوگا۔
پاکستان میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کی اہم وجہ سرحدی بارڈر، ائیر پورٹس، اور بندرگاہوں پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ پاکستان انفیکشن کنٹرول سوسائٹی کے جاری اعدادو شمار کے مطابق ملک میں مختلف تقریبات میں ایس او پیز کی خلاف ورزی ابھی بھی جاری ہے،لوگ ہاتھ ملانے اور سماجی دوری اختیار کرنے سے ابھی بھی اجتناب نہیں کر رہے جس وجہ سے یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہماری پاکستانی عوامی کورونا وائرس سے اتنی پریشان نہیں جتنی ملاقاتیں کم ہونے پر ہے جبکہ کورونا وائرس نے کروڑوں لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، دُنیا بھر کے نوجوان، بوڑھے اور بچے اس کے خطرات کے باعث نفسیاتی اور ذہنی الجنوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
پاکستان کو یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ دُنیا بھر میں کورونا وائرس سے کئی لاکھ اموات واقع ہو چکی ہیں ، تقریباٙٙ ایک کروڑ افراد اس وائرس سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ اس مہلک وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے سماجی دوری کو ضروری قرار دیا گیا تھا لیکن ہم تو قطعی طور پر سماجی دوری پر عمل نہیں کر رہے, ہمیں ہر جگہ انسانوں کا جمِ غفیر نظر آتادکھائ دیتا ہے یعنی ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی موت کے اسباب پیدا کر رہے ہیں۔کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لئے جو لاک ڈاوّں چین میں شروع ہوا تھا وہ اب تقریباٙٙ پورے کرہ ارض پر پھیل چکا ہے، معاشی اور تجارتی تعلقات اور ہر قسم کے روابط محدود ہو کر رہ گئے ہیں معاشی پہیہ رُک جانے کی وجہ سے دُنیا کی بہت سی انڈسٹریز تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔صورتحال یہاں تک آن پہنچی کہ سوائے چند ایک کے ہر ایک کاروبار پر بحران آ گیا ہوا ہے کیا یہ حقائق ہماری بند آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہ تھے؟
اس نازک اور سنگین صورتحال کا احساس ہمیں بحثیت پاکستانی قوم کرنا ہے، مصیبتیں، ناگہانی آفات اور وبائیں انسانوں کے لئے آزمائش ہوتی ہیں، کوئی ان سے کندن کی طرح بن کر نکلتا ہے، کوئی صرف گزارہ کرتا ہے اور کوئی مزید مصیبتوں اور پریشانیوں میں گِھر جاتا ہے۔ کورونا وائرس ایک اجتماعی آفت ہے، اس آفت سے ایک دوسرے کے ساتھ ملکر ہوش و حواس اور حمد و حکمت عملی استعمال کر کے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ اُمید ہے کہ اس وباء کے بعد دُنیا پہلے سے بہتر مقام بن سکے گی۔ ہماری عوام کو چاہیے کہ تمام اختیاطی تدابیر کا خیال رکھیں، تعمیری اور مثبت سوچ اپنائیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ یہ کام اگر سب ملکر کر کریں گئے تو پوری اُمید ہے کہ پاکستانی قوم اس مشکل سے جلد نجات حاصل کر لے گی۔
بقلم: کاشف شہزاد