یوں تو ہر حکومت بلدیاتی اداروں کو سفید ہاتھی سمجھتی ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کی بحالی کے ساتھ ہی سب اداروں کو خصوصی گرانٹس، چئیرمین، وائس چئیرمین کو اعزازیہ کی مد میں اربوں روپے دینے پڑتے ہیں۔ بلدیاتی نظام چلانے کے لئے بے پناہ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں اور اختیارات بھی نچلی سطح پر منتقل کرنے پڑتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں میں عوامی نمائندوں کی جگہ ایڈمنسٹریٹرز تعینات کرنے سے تمام تر اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہی رہتے ہیں اور فنڈز بھی حکومت اپنی مرضی سے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے ذریعے لگواتی رہتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جب اپوزیشن میں تھے تو بلدیاتی اداروں کی مضبوطی پر زور دیتے تھے، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے ساتھ ساتھ تمام ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں کے ذریعے کروانے کا ایجنڈا رکھتے تھے، ان کے مطابق اس وقت ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا کام ترقیاتی کام کروانا نہیں بلکہ قانون سازی کرنا ہے، ترقیاتی کام کروانا بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری سمجھا جاتا تھا۔ ان کے مطابق بلدیاتی اداروں میں فنڈز کے استعمال کا طریقہ ایسا شفاف بنانا تھا کہ کوئی کرپشن نہ کر سکے مگر اقتدار ملتے ہی سب وعدے وعدے ہی رہ گئے۔ روایتی سیاست دانوں کی طرح بلدیاتی اداروں کو غیر فعال کر دیا گیا۔
دنیا بھر میں بلدیاتی نظام حکومتوں کی معاونت کے ساتھ کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے کیونکہ اسی نظام کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے کہ یہاں سے منتخب ہونے والے لوگ اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر بڑے قانون ساز اداروں میں پہنچتے ہیں، چونکہ انکا واسطہ عوام سے رہا ہوتا ہے اس لئے وہ مسائل اور ان کے حل سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں المیہ یہ رہا ہے کہ ماضی کی ہر حکومت نے بلدیاتی اداروں کو اپنے لئے خطرہ سمجھا اور ہر ممکن کوشش کی کہ بلدیاتی نظام کو عوام میں پذیرائی نہ مل سکے تا کہ ایک طرف فنڈز کی بچت ہو تو دوسری طرف بڑے ایوانوں کے منتخب نمائندوں کا براہ راست رابطہ اپنے ووٹرز سے رہے لیکن اس سوچ کا ہمیشہ ہی عوام کو نقصان پہنچا، حالانکہ عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور مقامی مسائل کا فوری حل صرف منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے ہی ممکن ہے اور دُنیا بھر میں یہی نمائندے مقامی مسائل گھروں کی دہلیز پر جا کر حل کرتے ہیں، ہمارے یہاں اگر بلدیاتی اداروں کو اہمیت ملی بھی تو صرف آمروں کے دور میں اور اس بارے سابق صدر پرویز مشرف کے دور کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ جیسا سلوک آمروں نے جمہوری حکومتوں کے ساتھ کیا ویسا ہی سلوک جمہوری حکومتیں بلدیاتی اداروں کے ساتھ اب تک کرتی آ رہی ہیں۔ حالانکہ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی، دیہات اور شہروں کی ترقی بھی بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی آسانی سے ممکن ہوتی ہے لیکن پھر بھی کبھی فنڈز کے نام پر، کبھی سیاسی مخالفت تو کبھی کسی اور جواز کو بنیاد بنا کر بلدیاتی اداروں کو بے وجود رکھنے کی ہمیشہ سے کوشش کی گئی، حالانکہ عوام کے فوری مسائل حل ہونے کا کریڈٹ تو برسر اقتدار حکومت کو ہی جاتا ہے لیکن نہ جانے کیا خدشات ہیں جو سیاسی قیادت کو آج تک بلدیاتی اداروں کی تشکیل اور ان کو کام کرنے سے روکنے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ آج جن مسائل کو بنیاد بنا کر سیاست کی جا رہی ہے ان میں مہنگائی، صحت اور روزگار کے علاوہ وہ مسائل بھی شامل ہیں جو بلدیاتی ادارے ہونے کی صورت میں پیدا ہی نہ ہوتے، اسٹریٹ لائٹس، صفائی ستھرائی محتلف سرٹیفیکٹس کا اجراء اور دیگر ان گنت ذمہ داریوں کا بوجھ انہی بلدیاتی اداروں پر ہوتا تو عوام براہ راست اپنے نمائندوں سے جواب طلب کر سکتے تھے لیکن چونکہ نئے نظام کے نفاذ سے قبل ہی بلدیاتی اداروں کو ختم کر دیا گیا تو مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے گئے اور عوام کو بھی اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے تکلیف دہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔
کچھ دن پہلےچیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے بلدیاتی انتخابات کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 2 سال قبل تحلیل کئے گئے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب لوکل باڈیز ایکٹ مجریہ 2019 کے سیکشن تین کو آئین کے متصادم قرار دیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ عوام بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لئے منتخب کرتی ہے ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لیکر انہیں گھر بھیجنے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتے، انہوں نے مزید ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 140 کے تحت ادارے میں قانون سازی تو کی جا سکتی ہے مگر ادارے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کی ایک حثییت ہوتی ہے چاہے وہ وفاقی، صوبائی یا بلدیاتی ہو انکے اختیارات میں بھی تبدیلی کی جاسکتی ہے اور بنیادی ڈھانچے میں بھی تا کہ وہ اپنے آپ کو بہتر بنا سکیں۔
میرے خیال سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ جتنا جلدی ہو سکے بلدیاتی اداروں کو فعال کر کے انہیں عوامی مسائل کے فوری حل کا ٹاسک دیں تا کہ عوامی مشکلات میں کمی آ سکے، خصوصاٙٙ وہ کام جو چھوٹے اور بلدیاتی نمائندوں کے کرنے والے ہیں تاکہ بڑے ایوانوں کے منتخب نمائندے گلیوں مرمت اور اسٹریٹ لائٹس جیسے مسائل میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مفادِ عامہ میں پوری توجہ اور دل جمی سے قانون سازی کی طرف توجہ مرکوز کر سکیں۔
بقلم: کاشف شہزاد