اخلاق کامیابی کی وہ کُنجی ہے جس سے دنیا کی ہر مشکل کا ہر دروازہ کھولنا ممکن ہے، آپ اس کُنجی سے کسی بھی انسان کے دل میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں مگر یہ تب ہی ممکن یے جب سچے دل اور پوری سچائی کے ساتھ لالچ کے بغیر عمل کیا جائے۔
اخلاقی تربیت وہ تربیت ہے جو انسان کو چاند ستاروں کی طرح روشن کر سکتی ہے۔ اخلاقی تربیت کی ابتدا ماں کی گود سے شروع ہوکر خاندان کے باقی افراد اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے درمیان پروان چڑھتی ہے اور بعد میں نسل در نسل کا کام سر انجام دیتی ہے۔ پُرانے وقتوں میں بچوں کی تربیت پر خاص توجہ مرکوز رکھی جاتی تھی اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ بچے میں منفی اوصاف کا خاتمہ ہو اور اسکی شخصیت مثبت اوصاف کی حامل بنے۔ اس زمانے میں تعلیم کا دوسرا نام تربیت تھا، اخلاقی ذمہ داری سب سے زیادہ بچے کے والدین اور اساتذہ پر عائد ہوتی تھی، اس کے بعد اخلاقی تربیت کی ذمہ داری اسکول، کالج یا یونیورسٹی کے اساتذہ کی ہے۔ مگر جب تک اساتذہ اعلٰیٰ اخلاق و کردار کا عملی نمونہ نہ ہوں وہ شاگردوں کی تربیت نہیں کر سکتے۔
اخلاقیات کا سبق سیکھنے کے لئے ہمیں ہمارے پیارے نبیؐ کی سیرت پر عمل کرنا ہوگا کیونکہ اخلاقتیات میں ہمارے لئے اس سے بہتر کوئی عملی نمونہ نہیں۔ رسول اللّٰہ نے فرمایا کہ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اخلاق میں بہتر ہوں۔ ایک مقام پر آپؐ نے فرمایا کہ ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے اللّٰہ تعالٰیٰ نے قرآنِ مقدس میں نبی کریمؐ کے خلقِ عظیم کی عظمت یوں بیان فرمائی ہے ” بے شک آپکو خلق عظیم عطا کیا گیا ہے” بے شک نبی کریم ؐ کی کی سیرت ہم مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے "اے نبیؐ یقیناٙٙ آپ اخلاق کی اعلی قدروں پر فائز ہیں ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہو کہ عمدہ اخلاق والے ہی جنت کے حقدار ہیں، کسی کا دل دُکھا کر، اسے رُلا کر انسان کو عزت مل سکتی ہے اور نہ کسی دل میں جگہ مل سکتی ہے۔ ایسے بندے کی اس سے بڑی سزا کیا ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر منہ پھیر لیں یا راستہ بدل لیں۔
اخلاق کسی قوم کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حثییت رکھتا ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔ اخلاق دُنیا کے تمام مذاہب کی مشترکہ میراث ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں۔ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل شے اخلاق ہے۔ اچھے اور عمدہ اوصاف وہ کردار ہیں جن کی قوت پر قوموں کا وجود، استحکام اور بقاء کا انحصار ہوتا ہے۔ معاشرے کے بناوّ اور بگاڑ سے قومیں براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں آتی ہے۔ اور اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو تو اسکا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔
انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویوں کے ماتحت کام کرتی ہے تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور اگر اسکے منفی جذبے اس ہر قابو پا لیں تو یہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنح والی روحانی توانائی سے اسے محروم کر دیتے ہیں بلکہ اسکی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کُند کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ زندگی کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں بلکہ انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے لگتا ہے، یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے انسان کی اخلاقی حِس اسے اہنے حقوق فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔
اسلام میں ایمان و اخلاق دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ایک مسلمان کی پہچان اخلاق سے ہی ہوتی ہے اگر اخلاق نہیں تو وہ مسلمان نہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا ایک مسلمان ایمان کا تو دعویٰ کرئے مگر اخلاقیات سے عاری ہو۔
اخلاق اور ذمہ داری کا بھی آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اعلیٰ اخلاق انسان کے اعلیٰ ظرف کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ضروری ہے کہ والدین بچوں کو شکریہ اور معاف کیجئے گا جیسے الفاظ کہنا سیکھائیں۔ شکریہ اور مہربانی جیسے الفاظ گھر میں کہنا اتنا ہی ضروری ہیں جتنا کہ باہر علاوہ ازیں یہ سماجی طریقے سماجی زندگی میں سہولتیں پیدا کرتے ہیں۔ محفلوں اور مجلسوں میں انہیں پسندیدگی کی نظرسے دیکھا جاتا ہے خواہ وہ رسمی طور پر ہی کیوں نہ برتے جائیں لیکن اگر یہی الفاظ گرم جوشی سے کہے جائیں تو بچے کو اپنے بڑوں اور بچوں کو دوست بنانے میں سہولت ہوتی ہے۔
بچوں کی فطرت میں جلد بازی ہوتی ہے اس لئے اگر کسی وقت کوئی بچہ مقررہ اخلاقی ضوابط خلاف ورزی کرئے تو اسے سزا نہ دینی چاہیے۔ مناسب یہ ہے کہ بچے سے مہربانی اور شکریہ جیسے الفاظ خود کہہ کر اسے اخلاق و اداب سیکھائے جائیں۔ مارنا سزا دینا اور بُرا بھلا کہنا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اگر والدین کو شکریہ وغیرہ جیسے الفاظ کہلوانے ہی میں خوشی ہوتی ہے تو اور بات ہے ورنہ بچے کی آنکھوں میں احسان مندانہ مُسرت ہی بہت کافی ہوتی ہے۔
عمر کے ساتھ ساتھ دوسروں کے ساتھ برتاوّ اور آداب و اخلاق میں بھی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ انھیں تعلیم دینے کے لئے اپنے آپکو بطور نمونہ پیش کیجئے۔ جس بچے کو صبح محبت، پیار اور مُسکراتے ہوئے سلام کہا جاتا ہے اور رات کو سوتے وقت شب خیر کہا جاتا ہے وہ بھی دوسروں کو سلام کرتا اور جاتے وقت خدا حافظ کہتا ہے۔ بچوں کی زبان سے والدین کے پیار اور ہمدردی بھرے جملے انکی خوش اخلاقی اور شائستگی کا بہترین ثبوت ہیں۔
اُستاد علم کا سر چشمہ ہوتا ہے قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اساتذہ کا درجہ باپ کی طرح ہے اور اسے اپنے طلبہ کے ساتھ باپ کی طرح شفقت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، ان سے محبت کرنی چاہیے۔ اُستاد کو چاہیے کہ طالب علموں کی سمجھ اور ادراک کے مطابق ایسے الفاظ میں خطاب کرئے جسے وہ سمجھ سکیں اور انکی سمجھ سے بالا تر چیزیں بھی نہ بتائیں ورنہ وہ اسی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کیونکہ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے فرمایا کہ لوگوں کو وہی باتیں بتایا کرو جن کو وہ پہچانتے ہوں اور اسکی معرفت رکھتے ہوں۔ ہر معلم اور معلمہ کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت کے لئے ان طریقوں کو زیرِ عمل لائے جو قرآنِ مقدس اور سُنتِ مطہرہ میں مذکور ہیں۔ مسلمان نسل کو کامیابی اور ترقی کی منزلیں طے کرانے کے لئے قرآن و سُنت سے رہنمائی لیجئے۔ اس جوان نسل تہذیب یافتہ، بہادر اور جری ہوگی اور وہ سب ملکر اپنے دین اور اُمت کا دفاع کریں گے۔
بقلم: امتل ھدیٰ