وزیرِ اعظم پاکستان کو کیا خبر تھی کہ راولپنڈی رنگ روڈ پراجیکٹ کا پنڈوراباکس اس طرح کھلے گا کہ پانامہ بھی ماند پڑ جائے گا۔ اس میگا اسکینڈل سے متعلق ہوش ربا انکشافات تقریباٙٙ میڈیا کے ہر فورم پر ڈسکس ہو رہے ہیں۔ کرپشن کی اس دیگ پر سے ڈھکنا کمشنر راولپنڈی گلزار حُسین کی رپورٹ نے ہٹایا، انکی رپورٹ پڑھ کر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ وطنِ عزیز میں مافیاز اس قدر طاقت ور اور بارسوخ ہو چکا ہیں کہ بھولے بادشاہوں کے اقتدار تک کھا جائیں اور ڈکار نہ لیں۔ گلزار حُسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، یہ رپورٹ اس افسوس ناک حقیقت کی غماز ہے کہ کرپٹ عناصر کس طرح مل کر راتوں رات عوام کی جیب سے کھربوں روپے غائیب لیتے ہیں۔
میرے خیال سے پاکستان کے مقدر میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ اگر پاکستان میں آسمان سے اُتر کر بھی حکومت آئے گی تو وہ بھی سکینڈلز میں ہی رہے گی، اس حساب سے یہ حکومت کیسے سکینڈلز سے پاک صاف رہ سکتی تھی۔ اس لئے موجودہ حکومت کا آٹا، چینی، پٹرول، آئی پی پیز،، ادویات سکینڈل کے بعد چھٹا بڑا سکینڈل راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل بھی حاضرِ خدمت ہے۔ لیکن اس حکومت اور سابق حکومت کے درمیان ایک واضح فرق ضرور ہے کہ سابقہ ادوار میں جو بھی سکینڈلز منظرِ عام پر آتے، اُنہیں یا تو چُھپا لیا جاتا یا اُس کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی جاتی اور سب کچھ پسِ پشت ڈال دیا جاتا۔ لیکن موجودہ حکومت اس حوالے سے ذرا ہٹ کر کام کر رہی ہے کہ وہ ہر آنے والے ہر سکینڈل کی رپورٹ خود ہی منظرِ عام پر کر کے اپنی صفوں میں موجود مافیا کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ موجودہ سکینڈل راولپنڈی رنگ روڈ کی رپورٹ بھی منظرِ عام پر آ چکی ہے جس میں وہی روایتی اور پُرانے طریقے سے پیسہ کمانے کے انکشافات کئے گئے ہیں۔
اس منصوبے کے گزے وقت میں راولپنڈی اور اسلام آباد میں بڑھتی ٹریفک کے دباوّ کو کم کرنے کے لئے منظوری دی گئی تھی جس کے تحت راولپنڈی کے علاقے روات سے ایک سڑک تعمیر کی جانی تھی جسے راولپنڈی شہر کے باہر سے ہوتے ہوئے ترنول کو جی ٹی روڈ اور پھر موٹروے کو ملانا تھا۔ اس رنگ روڈ کی تعمیر سے جی ٹی روڈ سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ جانے والی ٹریفک بالخصوص ہیوی ٹریفک نے رنگ روڈ استعمال کرنا تھا جسکی وجہ سے اسلام آباد ہائی وے پر ہیوی ٹریفک کا دباوّ کم ہونا تھا۔ اس منصوبے کے لئے پیسوں کا بندوبست بھی ہو چکا تھا لیکن گزشتہ دور میں اس منصوبے پر عملی طور پر آغاز نہیں ہو سکا تھا اور 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، پھر اس منصوبے میں 26 کلومیٹر کا اضافہ ہو گیا اور اس اضافے کا نہ ہی وزیرِ اعظم کو علم تھا اور نہ ہی وزیر اعلیٰ کو، اس لحاظ سے دونوں کے ساتھ انکی کابینہ نے ہاتھ کر گئی اور انہیں خبر تک نہ ہونے دی۔ اب تحقیقات ہوں گی تو پتہ چلے گا کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔ پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا، وائٹ کالر کرائم کی تاریخ پاکستان بننے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے، یہاں جب بھی یا جس دور میں بھی نئے پراجیکٹس، نہریں، ڈیم، بیراج اور سڑکیں بننا شروع ہوئیں حتیٰ کہ اگر کسی جگہ اسکول،کچہری یا منڈی بنتی تو اس جگہ کی فیزیبلٹی رپورٹ کے ساتھ وہاں کا نقشہ کھینچا جاتا اور اُسی نقشے کی حُفیہ طریقے سے نقل اپنے عزیزوں، دوستوں کو سرکولیٹ کر دی جاتی تو سرکاری ملازمین یا سیاستدانوں کے عزیزواقارب وہاں جا کر پہلے ہی سستے داموں زمینیں خرید لیتے۔ پھر جب مذکورہ پراجیکٹ بننا تو بہت دور جب اُس کا آغاز ہی ہوتا تو سستی زمینوں کے ریٹ آسمان سے باتیں کرنے لگتے اور انہی دہاڑیوں کی وجہ سے ہمارے غریب اور عوام دوست بیوروکریٹس اور سیاستدان دن دُگنی رات چوگنی ترقی کرتے چلے جاتے۔ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ بھی کچھ اسی طرح کی کہانی کے زمرے میں آ رہا ہے، اس منصوبے پر جب عمل درآمد کرنے کے لئے پیپر ورک شروع کیا گیا تب ہی یہ منصوبہ متنازعہ بن گیا۔ اس منصوبے میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور مبینہ کرپشن کے متعلق جب وزیرِ اعظم عمران خان کو علم ہوا تو اُنہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ رپورٹ سامنے آنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کا کہنا بالکل درست ہے کہ اس ملک میں مافیا کا راج ہے۔ عمران خان خود ٹھیک ہیں بھی تو کیا حاصل، کیونکہ انکے اردگرد بھی مافیا کا ہی راج ہے جو انہیں درست سمت میں بڑھنے نہیں دیتے انہیں کام نہیں کرنے دیتے۔ رپورٹ کے مطابق منصوبے میں مبینہ طور پر ہونے والی بے ضابطگیوں کی ذمہ داری اس وقت کے راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر محمد محمود اور لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر وسیم علی تابش پر ڈال دی گئی اور لکھا گیا کہ دونوں افسران نے غیر قانونی طور پر دو سے تین ارب روپے اس منصوبے کے لئے زمین کی خریداری کی مد میں خرچ کئے۔ رپورٹ پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ منصونے کا مقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا بلکہ اس کے ذریعے 10 ہاوسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنے تھے۔ اس بہتی گنگا میں ہاوسنگ اسکیم کے ایجنٹوں نے بھی فائدہ اُٹھا کر ہاوسنگ اسکیموں کی فائلیں بیچ کر کروڑوں کمائے۔ اس مبینہ کرپشن کی داستان میں وزیرِ اعظم کے دو قریبی ساتھی زُلفی بخاری اور غلام سرور کا نام بھی ہے اور یہ ظاہر بھی ہے کہ اتنا سب کچھ حکومتی کرندوں کی سرپرستی کے بنا کیسے ممکن ہو سکتا تھا۔ مُلک بھر میں یہ مکروہ دھندہ نہ جانے کب سے چل رہا ہے لیکن سب کی آنکھیں بند ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے اگر اس مافیا سے لڑنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو صرف راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کے ذمہ داران کو ہی نہیں بلکہ ملک میں موجود ہر اس اسکیم، پراجیکٹ جس میں ملکی خزانہ اور عوام کو نقصان پہنچایا گیا ہے میں ملوث افراد کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے موّثر اقدامات کریں تاکہ ملک کا پیسہ ان ناسوروں کے ہاتھوں ضائع ہونے سے بچ سکے۔
بقلم: کاشف شہزاد