پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں گزشتہ کئی ہفتوں سے ایک نئی سیاسی پارٹی بننے کی گونج سُنائی دے رہی ہے۔ الیکٹیبلز کے ڈرائنگ رومز میں یہ بات عام ہو رہی ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت بننے جا رہی ہے۔ ویسے نئی سیاسی جماعت کا منظر عام پر آنا کوئی نئی بات نہیں، 2018 کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کی جیت کے بعد ہی بااثر حلقوں میں سوچ بچار شروع ہو گیا تھا کہ ملک کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے، جسکا وقت کے ساتھ ساتھ فیصلہ موّخر ہوتا رہا مگر اب دوبارہ اس ممکنہ نئی سیاسی جماعت کے قیام کی سرگوشیاں سُننے میں آ رہی ہیں جس سے وزیرِ اعظم عمران خان بھی یقیناٙٙ آگاہ ہوں گے۔
یہ سیاست بھی عجیب چیز ہے ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے مدِمقابل آ کھڑے ہوتے ہیں تو دلوں پر کیا بیتتی ہے یہ وہی جانتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے انتہائی قریبی ساتھی جہانگیر ترین نے اپنے ہی لیڈر کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ جہانگیر ترین نے اراکینِ اسمبلی سے گروپ میں شامل رہنے کے لئے عہد و پیام لے لیے جبکہ قومی اسمبلی میں راجہ ریاض احمد، اور پنجاب اسمبلی میں سعید اکبر نورانی کو پارلیمانی لیڈر بھی بنا دیا، جس سے عملاٙٙ تحریکِ انصاف دو گروپوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایم پی اے سلمان نعیم نے پنجاب اسمبلی میں باقاعدہ ترین گروہ کی جانب سے پاور شو کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔ سینیٹر علی ظفر کی رپورٹ کے بعد بجٹ میں حکومت کو ووٹ دینے یا نہ دینے کے حوالے سے منصوبہ بندی کا فیصلہ بھی کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ وزیرِ اعظم ان پارلیمانی لیڈرز کو قبول کریں گے یا نہیں؟ یا ان اقدام کا مقصد عمران خان سے صرف ریلیف لینا ہے یا پھر حکومت کو بلیک میل کرنا مقصود ہے۔ ان سوالات نے نئی بحث کو جنم دے دیا ہے یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ممبران کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جائے گی کیونکہ حکومت سے ناراض ارکانِ اسمبلی اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو پہلے ہی وزیرِ اعظم سے بہت سے تحفظات ہیں۔ لاہور میں جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاس میں ترین گروپ کے ایم این اے اور صوبائی وزراء کی اکثریت شریک ہوئی۔ اس موقع پر تمام شرکاء نے جہانگیر خان ترین کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا، جبکہ مشاورت کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلی میں اتحادی اراکین کو متحد رکھنے کے لئے پارلیمانی لیڈرز کا بھی غیر اعلانیہ فیصلہ کر دیا۔ اجلاس میں ترین گروپ کے ایم این ایز کا کہنا تھا کہ جب ہم پر ترین گروپ کا لیبل لگ ہی چُکا ہے تو ہمیں فیصلے بھی جہانگیر خان ترین کی قیادت میں کرنے ہیں، جبکہ کچھ شرکاء نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان ہمارے گروپ کےساتھ انصاف کی فراہمی کا وعدہ پورا کریں گے۔ اجلاس میں شاہ محمود قریشی کے بیان پر ارکان نے شدید ردِ عمل دیا اور کہا کہ وزیرِ خارجہ کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا جس سے اُنکی اپنی پارٹی کے ارکان میں غم و غصہ پیدا ہو۔ حکومتی معاملات ٹھیک ہونے کی بجائے خراب ہو رہے ہیں۔ سیاسی حالات اپنی جگہ پر، کچھ زمینی حقائق بھی جان لینے چاہیئے تاکہ وزیرِ اعظم اور جہانگیر ترین کے مابین تنازعہ کی حقیقت آشکار ہو سکے۔ اس وقت پاکستان میں 80 شوگر ملز ہیں جن میں زردای گروپ، شریف خاندان، اومنی گروپ کی ملکیتی شوگر ملز کی تعداد 40 سے زیادہ ہے جبکہ جہانگیر ترین کی صرف 3 شوگر ملز ہیں اسکے باوجود عمران خان کے مخالفین اور میڈیا نے اپنی توپوں کا رُخ جہانگیر ترین کی طرف کر رکھا ہے جسے میڈیا ٹرائل کا نام دے دیا گیا ہے۔ اگر وزیرِ اعظم عمران خان نے حالات پر قابو نہ پایا تو انہیں بہت بڑا سیاسی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ اس بغاوت کے نتیجہ میں جہانگیر ترین گروپ کے پنجاب سے 32 ایم پی اے اور 8 ایم این اے بجٹ سیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو موجودہ حکومت ختم ہونے کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ بہرحال پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں آجکل کئی رنگ نظر آ رہے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی نئی پارٹی سامنے آنے والی ہے؟ موجودہ سیاسی کھیل کیا شکل اختیار کرتا ہے یہ جاننے کے لئے بجٹ تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد