وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پیپلز پارٹی کے ایم این اے قادر خان مندوخیل کو تھپڑ کیا رسید کیا ہر طرف دھوم ہی مچ گئی۔ اس تھپڑ کی وجہ وہ تلخ کلامی ہے جو ان دونوں کے درمیان جاوید چوہدری کے پروگرام میں ہلکی پُھلکی نوک جھوک سے شروع ہوئی اور اچانک ہی گرما گرمی میں بدل گئی۔ جاوید چوہدری کے پروگرام کا یہ کلپ اچانک سے فیس بُک پر آگ کی طرح وائرل ہو گیا جس میں دونوں معززین آپس میں لڑتے دِکھائ دے رہے تھے۔ براہ راست پروگرام میں دونوں کی تلخ کلامی بڑھنے پر اینکر نے وقفہ بھی لیا مگر دورانِ وقفہ بھی انکے درمیان لڑنے جھگڑنے کا معاملہ رُک نہ سکا جس پر بات گالم گلوچ اور ہاتھا پائی پر آگئی۔ اس ٹاک شو میں مسلم لیگ ن کی عظمیٰ بخاری بھی موجود تھیں۔
یہ بات اصل میں بجلی کی کمی سے شروع ہوئی کہ موجودہ حکومت بجلی کی کمی کو پورا کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے اور پھر ٹرین حادثے تک جا پہنچی جس پر فردوس عاشق اعوان نے سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کے جائے وقوعہ پر نہ پہنچنے پر تنقید کی تو قادر خان مندوخیل جو کہ پیپلز پارٹی کے منتخب ایم این اے ہیں نے ڈاکٹر صاحبہ کو جواب دیا کہ آپ کے وزیرِ ریلوے کون سا جائے وقوعہ پر پہنچے حالانکہ ذمہ داری اُنکی بنتی تھی اس کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے قادر خان مندوخیل کو کہا کہ وہ اور پیپلز پارٹی سر سے پاوّں تک کرپٹ ہیں جسکے بعد مندوخیل نے جواباٙٙ کہا کہ آپ کون سا دودھ کی دُھلی ہیں آپ بھی تو کرپٹ ہیں، جس پارٹی کو آپ کرپٹ کہہ رہی ہیں اسی پارٹی کے دورِ حکومت میں آپ اقتدار کے مزے لیتی رہی ہیں اور اب اسی پارٹی کو چور اور ڈاکو کہہ رہی ہیں۔ قادر خان مندوخیل کے مطابق اُنکی جماعت کے ایک رہنما نے ایک پروگرام میں بسوں کی خریداری پر کرپشن کا الزام لگایا تھا اور اسی وجہ سے وہ وفاق کے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔ اس بات پر ڈاکٹر صاحبہ نے مندوخیل کو آن ائیر ہتک آمیزعزت کا مقدمہ کرنے کی دھمکی دی جس پر بات آپے سے باہر ہو گئی اور میزبان کو مجبوراٙٙ وقفہ لینا پڑا۔ وقفے کے دوران ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے مندوخیل کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی، حتیٰ کہ اُن سے بار بار لڑنے کی کوشش کرتی رہی اور آخر جب ڈاکٹر صاحبہ کو موقعہ ملا تو اُنہوں نے ایم این اے مندوخیل کو تھپڑ بھی رسید کر دیا۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ قادر خان نے مجھے ہراساں کیا اور مجھے دھمکیاں دیں اور اسی بدکلامی اور بد زبانی کی وجہ سے مجھے اپنے دفاع میں انتہائی اقدام اُٹھانا پڑے کیونکہ میری سیاسی ساکھ اور عزت دھاوّ پر لگی تھی۔
حقیقت میں ٹاک شوز میں سخت بولنا، دوسرے کو دیوار کے ساتھ لگانا، اپنے موّقف کو زیادہ زور دار طریقے سے دوسروں کے سامنے پیش کرنا اور دوسروں کی آواز کو دبانا نارمل حالات میں رہتا ہے یہ نوبت تب آتی ہے جب لوگوں کے پاس اپنا آپ ثابت کرنے کے لئے دلیل نہیں ہوتی، یا جب مخالف پارٹی کا پراپیگنڈہ اتنے زور دار طریقے سے آ رہا ہو کہ آپکی برداشت سے باہر ہو، چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نا بول رہے ہوں، یا کسی کو یہ لگے کہ میرے اپنی جو پوزیشن ہے وہ اس وقت خطرے میں آ گئی ہے۔ یا کسی کو ایسے نا زیبا الفاظ بولے جائیں جو وہ برداشت نہ کر سکے، کچھ ایسا ہی ڈاکٹر صاحبہ کے ساتھ ہوا، دورانِ وقفہ مندوخیل نے کوئی تو ایسی بات کی جس پر ڈاکٹر فردوس عاشق کو یہ انتہائی قدم اُٹھانا پڑا۔ مخالف پارٹی کا ہونے کے باوجود نارمل سیاستدانوں کی آپس میں دوستی ہوتی ہے لیکن ایک آدمی جس سے جان پہچان بھی ٹھیک سے نہ ہو، سیاسی بحث میں آپ سے ہارنے لگے، دلیل کی بجائے کرپشن الزامات لگانے لگے اور پھر جب دیکھے کہ سامنے عورت ہے تو ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے کہے کہ اپنے بچوں کی پیدائش کا الزام بھی مجھ پہ لگا دو تو عورت کو چاہئیے کہ صرف تھپڑ نہ لگائے بلکہ لاتوں اور جوتوں کی برسات کرئے تاکہ بات کرنے والے کی سات نسلیں یاد رکھیں اور آئندہ کوئی ایسی بات کرنے کی کسی عورت سے جراّت نہ کر سکے۔
بقلم: کاشف شہزاد