دُنیا کی ہر قوم جانوروں اور درندوں سے پیار کرتی ہے مگر تُرک ایک ایسی قوم ہے جو صرف بھیڑئیے سے پیار کرتی ہے۔ بھیڑیا بظاہر ایک خونی درندہ ہے مگر تُرک قوم نے اسے بطور قومی جانور مقرر کر رکھا ہے۔ تُرک قوم اپنے ہر مقصد کو پانے کے لئے اس جانور سے اپنے ارادوں کو تشبیع دیتے ہیں جسکی مثال ارطغرل غازی ڈرامہ سیریل میں متعدد بار تُرک قوم دے چُکی ہے اس ڈرامہ میں جب بھی جنگ و جدل یا بہاردی کی بات ہوتی ہے تو ارطغرل اور اُس کے دوسرے ساتھی بڑے فخر کے ساتھ خود کو بھیڑئیے سے تشبیع دیتے بلکہ ایک جنگ میں تو ارطغرل اور اسکے جانباز بھیڑئیے سے مشابہہ لباس پہن کر جنگ کے میدان میں اُترتے ہیں اور فتح کا جھنڈا گاڑ کر واپس لوٹتے ہیں۔ آخر اس درندہ صفت جانور میں ایسی کیا وجہ ہے کہ یہ قوم اس پر فدا ہے؟ اصل میں بھیڑیا ایک بدنام جانور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسکی بدنامی میڈیا ٹرائل کا نتیجہ ہے۔ یہ بدقسمت جانور جانے کس تعصب کا نشانہ بن کر معتوب ٹھہرا ہے حالانکہ حقیقت میں بھیڑیا ایک انتہائی منتظم، نیک خصلت اور عزتِ نفس سے مالا مال درندہ ہے۔ اس کی سب سےمنفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہ جنات کو قتل کر سکتا ہے اسکی تیز آنکھوں میں اللّٰہ ربُ العزت نے جنات کو دیکھنے کی صلاحیت ڈال رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ جنات کو دیکھتے ہی بھیڑیا ان پر جھپٹ کر اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار سکتا ہے۔ اس درندہ کی اسی صلاحیت کے سبب بھیڑیوں کی موجودگی والے علاقے میں جنات اپنا بسیرا نہیں رکھتے۔ یہ واحد درندہ ہے جو اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا یہ واحد درندہ ہے جو کسی کا غلام بننا پسند نہیں کرتا جبکہ دُنیا کے سب سے خطرناک اور بڑے بڑے جانور انسانوں کے ماتحت چڑیا گھروں اور سرکسوں میں دُنیا کے سامنے تماشے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ درندہ مردہ جانوروں کا گوشت نہیں کھاتا اسکی خصلت میں ہی شکار ہے یہ واحد درندہ صفت جانور ہے جو اپنے ماں باپ کا انتہائی وفادار رہتا ہے اور بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کرتا ھے۔ یہ ایک غیرت مند جانور ھے اسی لئے تُرک قوم اپنی اولاد کو شیر کی بجائے بھیڑیے سے تشبیہ دینا عزیز سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا درندہ ہے جسکی آنکھوں اور سوچ پر کبھی پردہ نہیں پڑتا یعنی یہ اپنی ماں اور بہن کو پہچانتا ہے اور کبھی بھی انہیں شہوت زدہ آنکھوں سے نہیں دیکھتا، یہ اپنی شریک حیات کا اتنا وفادار ہوتا ھے کہ اس کے علاؤہ کسی اور مؤنث سے تعلق قائم نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ موّنث بھی اسکے ساتھ ہمیشہ وفا نبھاتی ہے۔ بھیڑئیے کی بہترین صفات میں وفاداری، خودداری، بہادری اور والدین سے حُسنِ سلوک مشہور ہیں۔ بھیڑئیے جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہوتے ہیں تو بطور کارواں سب سے آگے چلنے والے بوڑھے اور بیمار، جبکہ اُنکے تھوڑا سا پیچھے چاقو چوبند بھیڑئیے ان بھوڑوں کا خیال رکھنے کے لئے چل رہے ہوتے ہیں، اُنکے پیچھے طاقتور دشمن کا دفاع کرنے والے طاقتور بھیڑئیے چلتے ہیں جبکہ سب سے آخر پر اس کارواں کا مستعد قائد چل رہا ہوتا ہے جو سب کی نگرانی کرتا ہے اور ساتھ میں ہر طرف سے دشمن کا بھی خیال رکھتا ہے اسکو عربی زبان میں آلف کہتے ہیں جسکا مطلب اکیلے کا ہزار کے برابر ہونا ہے۔ خیرت کی بات ہےبھیڑئیے اپنا بہترین اور خیر خواہ قائد منتخب کرتے ہیں جبکہ ہم انسان یعنی اشرف المخلوقات ہوکر بھی یہ نہیں دیکھ اور سمجھ پاتے کہ ہمارا خیر خواہ قائد کون ہے اور کون بن سکتا ہے۔ اصل میں بیان کنندہ صفات کی بناء پر ہی تُرک قوم نے بھیڑئیے کو اپنا قومی جانور مقرر کر رکھا ہے وہ قوم اس درندہ صفت جانور کو نہ صرف پہچانتی بلکہ ہر میدان میں اپنے ہر کام کو اس سے تشبیع دینا باعث فخر سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے یہ قوم بھی غیرت مند قوم ہے کیونکہ انکا قومی جانور بھی غیرت مند جانور ہے۔ میرے بھی خیال میں شیر جیسا خونخوار بننے سے بہتر ھے انسان بھیڑیے جیسا نسلی ہو تاکہ کم از کم وفاداری نبھا سکے۔
بقلم: کاشف شہزاد