پب جی گیم کے باعث ہونے والے قتل اور خود کشی کے واقعات نئے نہیں ہیں بلکہ اس سے قبل بھی کئی دلخراش واقعات رونما ہو چکے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اب یہ گیم ایک تفریخی گیم نہیں رہی بلکہ ایک قاتل گیم بن چکی ہے جسے کھیلنے والا گیم کے اینیمیٹڈ کرداروں کو مارتے مارتے اس قدر نفسیاتی وابستگی پیدا کر لیتا ہے کہ حقیقت میں دوسروں کی جان لیکر یہ سمجھتا ہے کہ شائد حقیقی زندگی بھی پب جی گیم کی طرح دوبارہ پھر سے شروع ہوجائے گی۔ ماہرین صحت کے مطابق ایکشن اور مار دھار پر مبنی آن لائن گیمز بچوں اور نوجوانوں میں بے شمار جسمانی و نفسیاتی تبدیلیاں پیدا کر رہی ہیں جن کی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں، قتل اور خودکشی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں۔ پب جی گیم سے قبل بھی کچھ آن لائن گیمز ایسی آ چُکی تھیں جن کو کھیلتے ہوئے دُنیا بھر میں ہزاروں ہلاکتیں رونما ہوئیں جن میں پوکی مون گو اور بلیو وہیل سرِ فہرست ہیں جبکہ آج کل فری فائر گیم بھی بہت کھیلی جا رہی ہے۔ قتل جیسے ناخوشگوار واقعات کے بعد پب جی گیم پر کئی مرتبہ عارضی پابندی بھی لگائی گئی لیکن جب پابندی ختم ہوتی ہے تو بچے پھر سے یہ گیم کھیلنے میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں گیم کھیلنے سے منع کرئے تو وہ اس کو گیم کے کرداروں کی طرح اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔
بالکل ایسا ہی ایک واقعہ کچھ دن پہلے لاہور کے علاقہ کاہنہ میں پیش آیا جس میں چودہ سالہ جوان زین نے پب جی سے منع کرنے پر اپنی ماں، بہنوں اور بھائی کو پب جی گیم کے کرداروں کی طرح بے دردی سے قتل کر دیا۔ زین کو ہر وقت ویڈیو گیمز کھیلنے کا جنون تھا، وہ گھنٹوں کمرے میں بند نت نئی گیمز کھیلنے میں مشغول رہتا تھا، اسکی پوری عمر موبائل کی ویڈیو گیمز پر مرکوز ہو چُکی تھی۔ سکول میں کیا ہو رہا ہے نتائج کیونکر اتنے نیچے جا چُکے ہیں، وزن کیون بڑھ رہا ہے اسے کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ بس بند کمرہ، خاموشی اور تنہائی اسے چاہیے تھی۔ ماں ڈاکٹر تھی اور اسکے اور بھی تین بچے تھے جن میں سارہ نور، جنت اور بیٹا تیمور شامل ہیں، سب ملکر زین کو بولتے کہ کہیں باہر چلتے ہیں، کرکٹ کھیلتے ہیں، مگر زین کا جواب ہمیشہ سب کو ایک جیسا ہی ہوتا تھا۔ میں گیم کھیل رہا ہوں، میرے پاس وقت نہیں۔ ڈاکٹر ناہید جو کہ زین کی والدہ تھیں، اُنہوں نے زین کو ٹوکنا شروع کر دیا کہ وہ سارا سارا دن کمرے میں بند ویڈیو گیم کیوں کھیلتا رہتا ہے، یہ مناسب بات نہیں ہے، مگر زین اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کی کوئی بات نہیں مانتا تھا۔ اس کے لئے تو ویڈیو گیم ہی سب کچھ تھی جسے وہ دن رات کھیلتا رہتا۔ ڈاکٹر ناہید ایک رات کمرے میں گئی اور بہت غصے سے زین کو منع کیا کہ خبردار یہ حرکات اور عادات چھوڑ دو، ان سے تمہارے زندگی برباد ہو رہی ہے۔ زین کو یہ لعن طعن بہت بُری لگی۔ وہ باہر گیا، کسی سے پستول لیا، چپکے سے گھر آیا اور اپنی والدہ، دونوں بہنوں اور بھائی کو قتل کر دیا۔ یہ خبر قیامت کی طرح چاروں اطراف پھیل گئی۔ پولیس آئی تفتیش شروع ہوئی۔ معمولی سی تفتیش نے بات کھول کر رکھ دی۔ اپنے خاندان کا قاتل زین ہی تھا جس نے یہ اندوہناک حرکت کی تھی۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے قیامت برپا کر دی، ایسے نا جانے کتنے ہی واقعات ہمارے مُلک میں آئے روز رونما ہو رہے ہیں مگر ہم لوگ ہوش کے ناخن نہیں لے رہے۔ اولاد کی درست تربیت والدین کی اوّل ترجیح ہونی چاہیے مگر آج کے دور میں یہ اوّل ترجیح ناجانے کیوں کوسوں میل دور چلی گئی ہے۔ والدین کے پاس اپنی ہی اولاد کے لئے وقت نہیں، یہی وجہ ہے کہ والدین کی معمولی کوتاہی اٙن گنت زین پیدا کر رہی ہے۔ میرا والدین سے سوال ہے کہ زین جیسے بیٹوں کی ذہنی ساخت کون تبدیل کرئے گا؟ یہ تو ایک نیا سماجی المیہ ہے جس پر کسی کا کوئی دھیان نہی۔ اب تو بگاڑ خون ریزی تک پہنچ چُکا ہے، آگے مزید کیا کیا عذاب پیدا ہوں گے اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد