آج کے کالم میں ان اشیاء پر نظر ڈالتے ہیں جن کی بڑی مقدار پاکستان میں درآمد کی جاتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث پاکستان کی درآمدات کا کھاتہ گزشتہ مالی سال کی نسبت تیز رفتاری کے ساتھ بُلندی کی طرف محو پرواز ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے حساب کتاب نے درآمدات کے اعداد و شمار میں جو ہوش ربا مالیت ظاہر کر دی ہے اس نے رواں مالی سال کے اختتام تک کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ تیل کی قیمتیں مختلف ادوار میں بھی بڑھتی اور گھٹتی رہی ہیں، اسی طرح اجناس اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا ہے جس کے باعث درآمدی مالیت بھی بڑھتی ہے۔ ان میں سے جہاں تک گندم کی بات ہے تو اگر پیداوار بڑھانے کے لئے فوری اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو آئندہ چند ہفتوں میں حکومت کی تمام تر کوششیں ناکام ہو جائیں گی جو حکومت گندم کو بچانے کے لئے کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کو اربوں ڈالر کی گندم کی درآمد کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔ اس کے بعد اگر بات کریں پام آئل کی تو پاکستان پام آئل کی درآمد پر سالان سے 4 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے جو کہ ایک خطیر رقم ہے، یقیناٙٙ پام آئل کی عالمی مارکیٹ میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اسی وجہ سے پاکستان میں بھی کھانے کے تیل کی قیمت میں یکایک شدید اضافہ ہوا تھا۔ پام آئل کے اعداد و شمار کو مدِ نظر رکھیں تو صورتِ حال واضح ہو جائے گی کہ رواں مالی سال کے جولائی تا دسمبر تک پاکستان نے 13 لاکھ 61 ہزار میٹرک ٹن پام آئل کی درآمد پر 47 کروڑ 4 لاکھ ڈالر صرف کئے ہیں۔ اس رقم کو بچانے کے لئے پاکستان میں خوردنی تیل کی پیداوار میں اضافے کے لئے کئی منصوبے زیرِ غور تھے جن میں پام آئل کے حصول کے لئے اور سورج مکھی کے تیل کی پیداوار کے لئے کئی زرعی منصوبے بنائے گئے مگر اُن پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اگر ان بنائے گے منصوبوں پر عمل درآمد شروع ہو جائے تو نہ صرف مُلک میں اربوں ڈالر کا زرِ مبادلہ بچ سکے گا ساتھ ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔
اگر دالوں کی درآمدات پر نظر دوڑایں تو پام آئل کی طرح عالمی مارکیٹ میں دالوں کی مختلف اقسام کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا جس وجہ سے مہنگائی نے زور پکڑا۔ پاکستان سال میں تقریباٙٙ ایک ارب ڈالر کی مختلف دالیں درآمد کرتا ہے۔ اور جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے دالوں کی طلب میں بھی اُسی قدر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، کسی دور میں ہر قسم کی دال انتہائی سستی ہوا کرتی تھی، ہر غریب شخص اسے خریدنے کی استطاعت رکھتا تھا لیکن اب تو انکا کہنا ہے کہ دالیں بھی اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ ہم لوگ خرید نہیں سکے، اب تو دالوں کو خریدنا بھی ایک خواب سا لگتا ہے۔ دالوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ ان میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لئے دالیں کھانے سے غذائیت کی کمی کو دور کیا جا سکتا ہے لیکن اب تو دالیں بھی اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ بہت سے غریب افراد کے بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ جب بچوں کے لئے خوراک کی کمی ہو گی تو غذائیت کی کمی کے باعث انکی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہوں گئے۔ ایک زرعی مُلک ہونے کے ناطے پاکستان بآسانی دالوں کی پیداوار کو اس حد تک بڑھا سکتا ہے کہ کہ دالوں کی درآمد کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور مُلک کا بہت سا سرمایہ بیرون مُلک جانے سے بچ جائے، بس اس کے لئے خلوصِ نیت اور پختہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد