کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ بھی مندمل نہیں ہوتے انہی میں سے ایک زخم 1971 میں پاکستان کا دولخت ہونا تھا جو 50 سال گزرنے کے بعد آج بھی پاکستانیوں کے دلوں میں تازہ ہے۔ تاریخ کے کڑوے گھونٹوں کا اگر مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس مُلک کے سربراہ جنہیں دُنیا مجیب الرّحمن کے نام سے جانتی ہے۔ 1940 کی دہائی میں تحریک پاکستان کے نمایاں کرداروں میں سے ایک تھے، وہ اپنے تمام سیاسی کیریئر کے دوران ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ مگر ہندوستان نے اپنی مکار پلاننگ کے تحت انہیں ایک محب وطن پاکستانی سے لازوال بنگلہ دیشی بنا دیا۔ بنگلہ دیش کے قیام سے ہی ہندوستان اسمیں اپنی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی بالادستی قائم کرنے اور بنگلہ دیشیوں کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر گھولنے میں کامیاب ہو گیا وہ اس لئے کہ یہ بھی ایک اسلامی ملک تھا اور ہندوستان ہمیشہ مسلمانوں کا دشمن رہا ہے اس وجہ سے انہوں نے مسلمانوں کو مسلمانوں سے ہی جدا کرنے کا پلان سوچا جس میں وہ کامیاب ہو گئے۔ مُسلمانوں میں اس قدر آپسی زہر گھول دیا گیا کہ ان دو جدا جسموں کو ایک جان کرنے کی کبھی کوئی کوشش ہی نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس مُلک کا ویزہ لینا ہمارے ہم وطنوں کے لئے ایک خواب کی طرح ہے۔ آج اس مُلک کی قیادت اُسی لازوال شخصیت کی بیٹی جسے پاکستانی غدار تصور کرتے تھے، قیادت کر رہی ہے، اب پورے پچاس سال بعد اس بے بنیاد تصور کو ختم کرنے کے لئے ہمارے مُلک کے نوجوان سیاست دان اس انہونی کے متعلق سراپا احتجاج ہیں۔ اگر بات کریں اس مُلک کی موجودہ وزیرِ اعظم کی تو وہ ایک باہمت باپ کی بہادر بیٹی ہے۔ جس نے ہندوستان کی مکاریوں کو پسِ پشت ڈال کر چین کے ساتھ اپنے مُلک کے تعلقات کو مضبوط کیا، اور وہ پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی لازوال کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کے علیحدہ ہونے سے آج تک ان 50 برسوں میں اس مُلک کے جتنے بھی حکمران آئے سب نے ملک بھر میں ایسے منصوبے شروع کیے اور انکو پایہ تکمیل تک پہنچایا جسکے ثمرات کا لطف آج اس مُلک کی عوام لے رہے ہیں۔ حکمرانوں نے صرف سڑکیں اور پُل بنانے پر اکتفا نہ کیا بلکہ سیلاب سے بچنے, شہریوں کو بچانے، زراعت کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کرنے کے ساتھ غربت میں کمی لانے ،خوراک کی پیداوار بڑھانے، کروڑوں لوگوں کو خطِ غربت سے نکالنے کے لئے منصوبہ بندی بھی کی، اگر قرض گیری ہوئی بھی تو سارا پیسہ پراجیکٹس مکمل کرنے میں عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا گیا۔ ٹیکسٹائل اور ریڈی میڈ گارمینٹس کی برآمدات میں اپنا ایسا لوہا منوایا کہ اب بھارت اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس مشرقی پاکستان کو ماضی میں ہم اپنے وسائل پر بوجھ سمجھتے تھے آج اُسکی جی ڈی پی گروتھ 5.2 ہے۔ اس کے زرِ مبادلہ 42 ارب ڈالر ہیں۔ اسکا ٹکا 84 روپے فی ڈالر کے برابر ہے۔ اُسکی فی کس سالانہ آمدنی 2064 ڈالر ہے۔ اس مُلک میں حکومت عوام کو سطح غربت کی لکیر سے اوپر لانے میں ہمہ تن گو مصروفِ عمل نظر آتی ہے جسکی وجہ سے میں بذاتِ خود اس مُلک کی حکومتی پالیسیوں اور ترقی کا معترف ہوں۔ اس مُلک کی حکومت کی پوری توجہ مُلکی معیشت پر مرکوز ہے اور دُنیا میں مثال بنی ہوئی ہے۔ اس مُلک کے تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے حکومت کو مضبوط کرنے میں اسکا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایک لاکھ 47 ہزار مربع کلومیٹر والا یہ مُلک جس کی آبادی تقریباٙٙ 17 کروڑ کے لگ بھگ ہے آج دُنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام پر طلوع ہوا ہے۔ بنگلہ دیشی ایکسپورٹ کے ساتھ ساتھ اپنے گہرے زخموں کا خم بھرنے، پاکستان کو مزید مستحکم کرنے، اور پاک بنگلہ دیش تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے کے لئے کچھ عرصہ قبل لاہور میں جمہوری وطن پارٹی کی جانب سے "پاک بنگلہ دیش دوستی کانفرنس” کا اہتمام کیا گیا، جس کی قیادت ہمارے مُلک کے نوجوان سیاست دان کامران سعید عثمانی نے کی۔ جنہوں نے اپنے بچھڑے بنگالی بھائیوں کو سینے سے لگانے اور دلوں میں بسانے کی مہم کے آغاز میں پہل کی۔ اُن کے ساتھ جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ کی یوتھ اور سٹوڈنٹس تنظیموں کے صدور اور نمائندگان موجود تھے جن کے دل پاک بنگالی دوستی زندہ باد کے نعروں سے مسرور ہو رہی تھی۔ برادر سعید عثمانی نے ایک ایسے وقت میں اس مہم کا آغاز کیا ہے کہ جب بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان ریاستی تعلقات انتہائی کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں، حتیٰ کہ ان کے ایک دوسرے کے لئے ویزے بھی بند ہو چکے ہیں۔ ایسے میں نوجوانوں کا آپسی تعلقات کے لئے آواز اُٹھانا کہ دونوں جانب کی حکومتوں کے کان کھڑے ہو گئے اور دنوں مُلکوں کا ازلی دشمن ان آوازوں کو سن کر بدحواس ہوکر سر پٹخ رہا ہے کہ یہ کیسے ہو گیا۔
اس کانفرنس میں پاکستان میں مقیم بنگلہ دیشی "نوجوان رہنماؤں” نے شرکت کی۔ مختلف جماعتوں اور گروپوں کے مقررین نے اس خطے کے دو "طاقتور مسلم ممالک” کے درمیان مزید دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے طریقوں اور ذرائع پر زور دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت بھی پاکستان میں صنعتکار تاجر جو حیات ہیں یا پھر انکی اولادیں جو بنگلہ دیش میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں کے کلچر اور عوام سے بھی واقف ہیں اگر حکومتی سہولیات میسر آجائیں تو وہ بنگلہ دیش سے تجارت کو بڑھا سکتے ہیں۔ ان میں کراچی، لاہور، چکوال اور چنیوٹ کے تاجر و صنعتکار فعال کردار ادا کر سکتے ہیں اور پُرانی تجارت کو بحال کر سکتے ہیں۔ جس سے پاکستان کی برآمدات میں نہ صرف اربوں ڈالر کا اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان بنگلہ دیش کے اُن 10 اہم ممالک کی فہرست میں بھی اپنا مقام بنا سکتا ہے جن سے وہ اپنی اشیاء درآمد کرتا ہے۔ بہر حال دونوں برادر ممالک ایک ہو سکتے ہیں جس کے لئے پاکستانی تاجر اہم کردار کر سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ آج وہ وقت بھی آ گیا ہے کہ ہم اپنی ان غلطیوں کا اعتراف کریں جن کے باعث مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔ اس کانفرنس میں پاکستانی مقررین نے مزید آپنی آرا حکومت کو پیش کیں اور کہا کہ وہ بنگالی زبان اور ثقافت کے احترام کے لئے باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کرئے، پاکستانی یونیورسٹیوں میں بنگلہ دیشی طلباء کے لیے وظائف کی تعداد میں اضافہ کریں اور پاکستان کے بڑے شہروں کی اہم سڑکوں کو شیخ مجیب الرحمٰن کے نام سے منسوب کریں تاکہ بنگلہ دیشی عوام میں بھی پاکستان کے لئے محبت پیدا ہو اور یہ پھر سے پہلے کی طرح ایک جسم اور دو جانیں بن کر ایک دوسرے کی مدد میں پیش پیش ہوں۔
میرے خیال میں اگر کامران سعید عثمانی کی یہ کاوش و کوشش جو اُنہوں نے روحانی رشتوں کو خونی رشتوں میں بدلنے کے لئے کر رہے ہیں اگر یہ کامیاب ہوجاتا ہے تو بنگالی اور پاکستانی دو ملکوں میں رہتے ہوئے بھی پھر سے ایک قوم بن سکتے ہیں۔ جس طرح مشرقی اور مغربی برلن اگر پھر سے ایک ہوسکتے ہیں تو مشرقی اور مغربی پاکستان کیوں نہیں ایک ہوسکتے۔یہی وہ جادو ہوگا جو بنگلہ دیش کے پندرہ کروڑ مسلمانوں اور پاکستان کے بائیس کروڑ مسلمانوں کو جوڑ کر بھارت میں آباد بتیس کروڑ مسلمانوں کوطاقتور بنائیں گے۔
بقلم: کاشف شہزاد