ہمارے لوگوں کی اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ اِن کے پاس نہ خود کوئی سمت ہے اور نہ یہ اپنی اولاد کو کوئی سمت دے پاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی میں اپنی ترجیحات ہی نہیں طے کر پاتے اور اگر ایسے میں ان لوگوں کی شخصیت کا اثر ختم نہ بھی ہو تو وہ معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا فعال اور مثبت کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اصل میں انسانی ترجیحات کا تعین کرنا ہی انسان کی فکر کو بُلند مرتبہ عطا کرتا ہے جس سے انسان کی منزل نظر آتی ہے اور جب ترجیحات ہی متعین نہ ہوں تو ہر منزل زندگی کے سیلاب کی زد میں بہہ جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر انسان اپنی ترجیحات خود چُن سکے، بسا اوقات انسان کو کسی ایسے اُستاد کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کی سوچوں کی اُنگلی تھام کر اسے حقیقی معنوں میں اسی راستے پر لا کھڑا کرئے جو واقعی اسکی منزلِ مقصود ہو۔ لکھاری دُنیا میں انسانوں کی زندگیوں میں ترجیحات کے تعین اور بے سمت سوچوں کو راہ راست کے خواب دکھانے والوں میں ایک نمایاں نام اُستادِ مکرم ایثار رانا صاحب کا ہے جنہوں نے اپنی بے شمار ٹریننگز کے ذریعے پاکستان کے نوجوان طبقہ جو اخباری و صحافتی عشق سے وابستہ ہیں کو نئی منزلوں سے روشناس کروایا ہے، ان کے تربیت یافتہ بے شمار نوجوان آج صحافتی دُنیا کا درخشاں اور تابندہ ستارہ بن کر جھگمگا رہے ہیں۔ محترم ایثار رانا صاحب بنیادی طور پر ایک صحافی ہیں جو اپنی قلم اور الفاظ کی بدولت صحافت کے وسیع سمندر میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مکرمی ایثار صاحب آج کی نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کے ہیرو بھی ہیں۔ محترم ایثار صاحب معروف دانشور، بہترین ٹرینر، صحافتی لیڈر اور بہترین شعلہ بیان مقرر ہیں، الفاظ ان کے آگے صف باندھے کھڑے ہوتے ہیں کہ جہاں انکا دل چاہے لگا کر فقرے کو خوبصورت موتیوں کی لڑی میں پرو دیں۔ انکی مختلف ٹریننگ ورکشاپس نے ینگ جنریشن میں مثبت فکر پیدا کی ہے۔ آپ کے الفاظ کی روشنی بے اعتمادوں کو جرات اور حوصلہ میں بدل رہی ہے۔ آپ جدید صحافت میں ہر لمحہ پیش پیش ہیں یہی وجہ ہے کہ جو بھی آپکو سُنتا ہے اُسکے خیالات کو رفعت ملتی ہے۔ آپ مسلسل محنت اور جد و جہد کا دوسرا نام ہیں، کیونکہ آپ نے مسلسل محنت اور جدوجہد کر کے صحافت کے میدان میں اپنا ایک ممتاز مقام پیدا کیا ہے۔ آپ بہترین تعلیم کے زیور سے مزین ہیں۔ محترم ایثار رانا صاحب کے ہاں کتابوں سے محبت کا مقصد مطالعہ برائے مطالعہ نہیں بلکہ کسبِ فیض ہے، یہی وجہ ہے کہ مطالعہ یہ کرتے ہیں مگر وسعت دوسرے لوگوں کی سوچ کو ملتی ہے۔ انکے وسیع مطالعہ کی بدولت ہی لوگوں کے ذہن کو پختگی اور دماغ کو بُلندی حاصل ہوتی ہے، کبھی لوگوں کا زاویہ نظر درست تو کبھی فکر راست ہوتا ہے کیونکہ ان کے الفاظ و حروف دلوں میں ہلچل اور آنکھوں میں جل تھل پیدا کر دیتے ہیں۔ آپ مشق لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب بھی ہیں۔ صحافت آج کے دور میں محض لکھت پڑھت کا نام نہیں رہا بلکہ یہ قصر والدین سے لیکر خاکِ افتادگان تک کی سیاسی سماجی ضرورت بن چُکی ہے اس لئے اگر کوئی نیا صحافی اپنی اس وسیع دُنیا میں بُرجمان ہونا چاہتا ہے تو وہ محترم و مکرم ایثار رانا صاحب سے صحافت کے چند گھنٹے دُنیا سے لاتعلق ہوکر ضرور وصول کرئے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جنکی روشنی سے چراغ روشن ہو رہے ہیں جو مزید روشنی بکھیرنے کے لئے تیار ہیں۔
میری خوش بختی کہ آپ جیسے عظیم اُستاد کی زینت میری قلم کے چند الفاظ بنے۔ آپ کے لئے ہمیشہ دعا گو ہوں۔
بقلم: کاشف شہزاد