اسلام آباد(ویب ڈیسک) ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شريف نے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحريک عدم اعتماد پيش کردی۔ قواعد کے مطابق تحریک پر ووٹنگ ایک ہفتہ کے دوران کرنا ضروری ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پیش کی، تحریک پیش کرنے کیلئے 161 اراکین نے حمایت کی۔ قواعد کے مطابق 3 سے 7 روز کے اندر ووٹنگ ہوگی۔
تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 31 مارچ تک ملتوی کردیا، جمعرات تحریک عدم اعتماد پر بحث ہوگی۔
شبلی فراز
سماء سے گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ پرویز الٰہی کی عمران خان سے ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتحادی ہیں اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں، اپوزیشن کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ’’ دیئر گیم از اوور‘‘، انہیں پتہ ہی نہیں ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پہلے بھی کہا تھا کہ وہ خود کو سیاست کی بند گلی میں لے جارہے ہیں، تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی۔
شیخ رشید
وزیر داخلہ شیخ رشید کا سماء سے گفتگو میں کہنا ہے کہ تین ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ 3 اپریل کو عمران خان جیتے گا، ایک سال قبل کہا تھا مارچ اپریل اہم ہیں، اپنی بات پر قائم ہوں، اپوزیشن 172 پورے نہیں کرسکتی، چاہے ایک ووٹ سے جیتے عمران خان جیتے گا۔
انہوں نے کہا کہ ق لیگ سے معاملات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، چوہدری جلدی ناراض ہوجاتے ہیں، کسی ترجمان سے اس حوالے سے بات کریں۔
آصف زرداری
صحافی کے سوال کہ کیا عمران خان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے؟ پر آصف زرداری نے الٹا سوال کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ سازش ہورہی ہے۔
صحافی کے سوال کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے جارہے ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ جی ہاں، انشاء اللہ فتح متحدہ اپوزیشن کی ہوگی۔
بلاول بھٹو زرداری
قومی اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اسپیکر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کردار غیر جمہوری ہے، وہ تحریک انصاف کا کارکن بن کر کام کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج تحریک عدم اعتماد پیش ہوچکی، وزیراعظم کیخلاف تحریک پر 7 دن میں ووٹنگ ہونی ہے، اب کوئی طریقہ نہیں کہ عمران خان اس پروسیس سے بچیں یا بھاگیں، ہماری پوری توجہ وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پوری ہونے کے بعد صوبوں کی طرف توجہ دیں گے، ہمیشہ مذہب کے استعمال کیخلاف رہا ہوں، سیاست گندا اور خطرناک کھیل ہے، سیاست کے ساتھ مذہب کو نہیں نتھی کرنا چاہئے، دنیا میں جہاں بھی حکمران عوام کے معاشی و بنیادی مسائل حل نہیں کرسکتے اور وعدے پورے نہیں کرتے تو وہاں مذہب کو استعمال کیا جاتا ہے، خان صاحب بھی یہی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے نمبر گیم
متحدہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 172 ووٹ درکار ہیں اور اس سلسلے میں متحدہ اپوزیشن نے اتحادی جماعتوں اور ناراض حکومتی ممبران اسمبلی کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اپوزیشن حکومت یا اتحادی جماعتوں کے 10 ارکان کے ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو تحریک کامیاب ہوجائے گی۔
قومی اسمبلی میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے 7، بی اے پی کے 5، مسلم لیگ ق کے بھی 5 اراکین، جی ڈی اے کے 3 اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے 15، بی این پی کے 4 جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ 2 آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔
اجلاس کے 27 نکاتی ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد کے علاوہ وقفہ سوالات، قائمہ کمیٹیز کی رپورٹس اور توجہ دلاؤنوٹسز بھی شامل تھے جبکہ جنوبی پنجاب صوبے کی قرارداد بھی پیش کی جانی تھی۔