پاکستان جو کہ جنوبی ایشیا کا ایک بڑا زرعی ملک ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روس یوکرین جنگ کے باعث مسلسل خوراک کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو بہت جلد صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
ملک اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے بھی بڑھ گیا ہے۔ اس صورتحال میں زرعی مقاصد کے لیے وافر مقدار میں پانی دستیاب نہیں ہے۔ فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ماضی میں گندم میں خود کفیل ہونے والا ملک دوسرے ممالک سے گندم درآمد کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی عدم دستیابی، ڈیزل اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے زرعی شعبے میں بحرانی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔
شدید گرمی کی لہریں بھی ایک عنصر ہے
رواں سال مارچ کے مہینے میں ریکارڈ گرمی کے باعث گندم ٹھیک طرح سے اگ نہیں سکی اور بڑی تعداد میں گندم کی بالیوں سے دانے پکنے سے پہلے ہی گر کر ضائع ہو گئے۔ اسی طرح جلد گرمی کی وجہ سے آم کے درختوں پر زیادہ بور نہیں لگے اور آموں کی بڑی مقدار ضائع ہو گئی۔ بہت سی دوسری فصلوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
"شدید گرمی کی وجہ سے ڈیم ڈیڈ لیول پر پہنچ چکے ہیں۔ دریاؤں اور نہروں سے مطلوبہ مقدار میں پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہو رہی ہے۔” پاکستان اس سال گندم کی مطلوبہ مقدار پیدا نہیں کرسکا اور حکومت دوسرے ممالک سے گندم منگوانے کی کوشش کررہی ہے۔
پانی کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے
ایک طرف شدید گرمی کی وجہ سے نہروں میں پانی نہیں ہے اور دوسری طرف دیہاتوں میں 12 سے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ جس کے باعث ٹیوب ویلوں سے پانی کی دستیابی بھی مشکل ہورہی ہے۔
ڈیزل بھی ایک اہم عنصر ہے جو زرعی شعبے میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے سے کاشتکاری کی لاگت بہت بڑھ گئی ہے اور کسان کسی نقصان سے بچنے کے لیے اپنی کم زمینوں پر فصلیں کاشت کر رہے ہیں۔
پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث زیادہ تر زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سکیمیں قائم کی جا رہی ہیں یا انہیں خرید کر فیکٹریاں بنا ئی جا رہی ہیں، اس لیے زرعی رقبہ بتدریج کم ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور سندھ کو ماضی میں روٹی کی ٹوکری کہا جاتا تھا ۔ پہاڑی علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے کئی چراگاہیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور کئی علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
رواں سال گندم کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے
ایک انگریزی اخبار کے مطابق ، حکومت کی جانب سے اس سال پاکستان میں گندم کی پیداوار کا ہدف تقریباً 29 ملین ٹن مقرر کیا گیا تھا لیکن گندم کی پیداوار ہدف سے 20 لاکھ ٹن کم تھی۔ جبکہ پاکستان کو 30 ملین ٹن سے زیادہ گندم کی ضرورت ہے، "یہ اعداد و شمار سرکاری ہیں لیکن بحران کی شدت اس سے کہیں زیادہ ہے۔”
حالیہ بجٹ میں پاکستان میں گندم کی سبسڈی قیمت 100 روپے مقرر کی گئی ہے۔ ان کے بقول اگر پاکستانی حکومت آج کے ریٹ پر گندم درآمد کرے تو یہ 100 روپے فی کلو کے حساب سے پاکستان پہنچ سکے گی۔ اس کے لیے حکومت کو کتنی سبسڈی دینی پڑے گی اور غریبوں کے لیے پہلے سے مہنگی روٹی اور روٹی کی قیمتیں کہاں پہنچ جائیں گی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان بھوک کا شکار دنیا کے 116 ممالک میں 22 ویں نمبر پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی ضرورت کے مطابق خوراک تک رسائی نہیں ہے۔
حکومت پاکستان مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے غذائی تحفظ کے حوالے سے قلیل مدتی، درمیانی مدت اور طویل المدتی پالیسیاں تشکیل دے رہی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کو موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر غذائی تحفظ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تحقیق میں تیزی لانے کی ہدایت کی گئی ہے تاہم پاکستان میں تحقیق کے معیار پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی سائنسدانوں کے لیے اس چیلنج کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا۔
مشترکہ کوششیں ضروری ہیں، بلاول بھٹو
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور یوکرین روس جنگ کے باعث پیدا ہونے والے خوراک کے عالمی بحران سے نمٹنے اور دنیا کے غریب ترین ممالک کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
بلاول نے اشارہ دیا ہے کہ خوراک کے بڑھتے ہوئے بحران اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر پاکستانی حکومت IMU سے اپنے شہریوں کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنی سخت شرائط میں نرمی کے لیے کہہ سکتی ہے۔
اس کا حل مشکل ہے، ناممکن نہیں
پاکستان کے لیے ان مسائل پر قابو پانا اتنا آسان نہیں ہے۔ بدقسمتی سے موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کی وجوہات میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے لیکن پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصانات کا سامنا ہے۔
حکومت موسمیاتی تبدیلی کے معاملے کو سنجیدگی سے لے، زرعی فصلوں کی زیادہ برداشت والی نئی اقسام متعارف کرائے، زرعی محققین کو چاہیے کہ وہ فصلوں کے لیے ایسا پیٹرن تجویز کریں جو موسمیاتی تبدیلیوں کو برداشت کر سکیں۔
حکومت کو زرعی شعبے کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے طویل المدتی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں اور پاکستانی کسانوں کو بین الاقوامی تاجروں کو پیسے دینے کی بجائے سہولیات فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنا سکیں۔
مزید پاکستان کی خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : پاکستان