کوئلہ توانائی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ کوئی انتخاب نہیں بلکہ پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ یہ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا ہے۔ لہذا، ملک کو طویل مدتی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مقامی کوئلے کے وسائل کو استعمال کرنے کی تجویز دی گئی۔ توانائی کے ماہرین کا ایسا ماننا ہے
ملک کو اس وقت سستی بجلی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ہائیڈل یا کوئلے کی پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لا کر حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس وقت کوئلے سے چلنے والے منصوبوں میں درآمدی کوئلہ استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے قومی خزانے پر بوجھ بڑھتا ہے، تاہم درآمدی کوئلے سے اسے مقامی طور پر پیدا ہونے والے کوئلے کی طرف موڑ دینے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے،
"پاکستان کی آبادی اور شہری ترقی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے، ملک کو 2030 تک بہت زیادہ اضافی توانائی کی ضرورت ہوگی۔ اسے توانائی میں خود کفیل بننے کے لیے کوئلے کے وسائل کی طلب کو پورا کرنے کے لیے استعمال کو تیز کرنے کی ضرورت ہے،”
پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئلے سے چلنے والے بجلی کے منصوبے شروع کیے تھے تاہم درآمدی کوئلے کے استعمال پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
اُس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) منصوبے کے تحت سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC) اور چین- سندھ ریسورسز (SSR) کو بھی لائسنس جاری کیے تھے۔ تھر میں کوئلے کے مقامی ذخائر کو استعمال کرتے ہوئے مائن ماؤتھ پاور پلانٹس کے ذریعے سستی بجلی پیدا کی جا رہی تھی۔
تاہم، موجودہ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت ایک بار پھر افغانستان سے کوئلہ درآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے،جبکہ تھر میں موجود کوئلے کے وسیع ذخائر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، جو اب آپریشنل موڈ میں ہیں۔
SECMC نے اب تک 10.5 ملین یونٹ (KWh) بجلی پیدا کرنے کے لیے 11 ملین ٹن کوئلہ نکالا ہے، جس سے حکومت کے سالانہ اخراجات میں سے 700 ملین ڈالرز کی بچت ہوئی ہے۔
دوسری طرف، توقع ہے کہ SSR مائن آپریشنل ہو جائے گی اور اگست 2022 تک بجلی کی پیداوار شروع کر دے گی۔
اس منصوبے سے دسمبر 2022 کے آخر تک 1.3 گیگا واٹ بجلی پیدا ہونے کی توقع ہے کیونکہ کان کی پیداوار 3.8 ملین ٹن سالانہ سے 7.6 تک ہو جائے گی۔
مزید یہ کہ حکومت سندھ نے کوئلے سے چلنے والے تمام پاور پراجیکٹس کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے تھر کے کوئلے کو ملک بھر میں پہنچانے کا ایک منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور تھر کے کوئلے کی کانوں، نیو چھور ہالٹ اسٹیشن اور کوہاٹ کو جوڑنے کے لیے جلد ہی 105 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک چلایا جائے گا۔
EFU لائف انشورنس ریسرچ کے سربراہ علی اطہر کا کہنا ہے کہ "پاکستان تھر میں کوئلے کے بہترین ذخائر بروئے کار لا سکتا ہے، جو تقریباً 175 بلین ٹن ہیں۔ وہ کم از کم اگلے 30 سالوں تک ملک کو بجلی فراہم کر سکتے ہیں،”
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں توانائی کی بنیادی ضروریات کا تقریباً 30 فیصد 40 فیصد کوئلے سے پورا کیا جاتا ہے۔
ہر سال دنیا بھر میں 1,000 ملین ٹن لگنائٹ (کم درجے کا) کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (ای آئی اے) کے مطابق، امریکہ کے پاس 190 سال تک کے دیرپا کوئلے کے ذخائر ہیں، جب کہ باقی دنیا کے پاس 300 سال تک کے قابل استعمال ذخائر ہیں۔
"اگر چہ اسے ناقابل تجدید سمجھا جاتا ہے، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ جلد ہی کوئلے کی قلت پیدا ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب دنیا میں بجلی کی پیداوار کے لیے کوئلے کی ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہو رہا ہے لیکن ختم نہیں ہو رہا ہے،‘‘
مزید برآں، ہر سال دنیا بھر میں استعمال ہونے والی کل توانائی کا تقریباً 80% نسبتاً سستا ہونے کی وجہ سے فوسل فیول سے پیدا ہوتا ہے۔
"پاکستان میں پائے جانے والے کوئلے میں سے زیادہ تر لگنائٹ ہے اور ملک کے چاروں صوبوں میں کوئلے کے وسائل موجود ہیں لیکن 95 فیصد سے زیادہ سندھ (تھر) میں ہیں۔”
"معاشی ترقی کے لیے آمدنی کا حصول دیسی کوئلے سے زیادہ ہوتا ہے اور دیسی کوئلے سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی تیز ہوسکتی ہے،”
"یہ درآمدی ایندھن کی طلب میں بھی کمی کا باعث بنے گا، جس سے زرمبادلہ کے وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ یہ بلاتعطل توانائی کی فراہمی کو بھی یقینی بنائے گا اور قومی معیشت کو تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے اثرات سے بچائے گا۔
مزید پاکستان سے متعلق خبریں حاصل کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : پاکستان