تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کے حملوں میں اچانک اضافے کے بعد بدھ کو خوبصورت وادی سوات میں کشیدگی برقرار رہی، تازہ ترین حملہ ضلع کی تحصیل مٹہ میں ایک پولیس چوکی پر کیا گیا تھا۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب حکام نے برہ بانڈے کے علاقے میں منگل کو ہونے والے ریموٹ کنٹرول دھماکے کی جگہ سے مزید تین لاشیں برآمد کیں، جس سے دھماکے سے مرنے والوں کی تعداد آٹھ ہو گئی، جن میں ایک مقامی طالبان مخالف سمیت دو پولیس اہلکار اور دو مزدور شامل ہیں۔
میں نے بارہا آگاہ کیا، خبردار کیا لیکن مکمل خاموشی۔ اب جب آگ ہمارے گھروں تک آئی ہے تو اپنے سیکورٹی اداروں سے کچھ سنجیدہ سوال۔ میڈیا اب بم دھماکے کی خبر دے رہا ہے لیکن تب خاموش،اگر یاد ہو میں نے یہ بھی پہلے کہا تھا کہ جب لاشیں گریں گی تو تب خبر چلائیں گے https://t.co/pb8Ai1E9UP pic.twitter.com/266ODoSTAx
— Murad Saeed (@MuradSaeedPTI) September 13, 2022
پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس چوکی پر حملہ تحصیل مٹہ کے علاقے سوکھرا میں رات گئے ہوا۔ ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے چوکی پر تین اطراف سے حملہ کیا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، انہوں نے مزید کہا کہ حملہ آور بعد میں جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔
حملوں کی حالیہ لہر کالعدم ٹی ٹی پی کے مزید شدت پسندوں کے افغانستان سے سوات میں داخل ہونے کے بعد سامنے آئی ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔
ایک ویڈیو پیغام میں، جس میں مبینہ طور پر ایک طالبان کمانڈر کی جانب سے سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی ہے، خبردار کیا گیا کہ عسکریت پسند بڑی تعداد میں سوات میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ کسی بھی طالبان مخالف کو نہیں چھوڑیں گے، خاص طور پر عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے وابستہ افراد کو۔
سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) زاہد نواز مروت نے موجودہ صورتحال پر تبصرے کے لیے بار بار کی جانے والی ٹیلی فون کالز کا جواب نہیں دیا۔
دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ
برہ بانڈے میں، جہاں منگل کو ایک دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے، تفتیش کاروں نے مزید تین لاشیں برآمد کیں، جس سے مرنے والوں کی تعداد آٹھ ہو گئی۔ ہلاک ہونے والوں میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے مقامی رہنما ادریس خان اور دو پولیس اہلکار شامل ہیں۔
جاں بحق ہونے والوں میں دو مزدور بھائی افضل شاہ اور ابراہیم شاہ بھی شامل ہیں۔ ان کی موت اس وقت ہوئی جب وہ ادریس خان کے گھر میں ماربل لگانے کا کام کر رہے تھے۔ بتایا گیا کہ ایک بھائی کی اتوار کو شادی ہونی تھی۔
ادریس خان اپنے گھر کام کا معائنہ کرنے گیا ہوا تھا۔ واپسی پر،دونوں بھائی دن بھر کی مشقت پوری کر کے اپنی گاڑی میں اس کے ساتھ آ گئے تھے۔ وہ ادریس خان کی گاڑی میں بیٹھے تھے جس پر ریموٹ کنٹرول دھماکہ ہوا۔ شاہ برادران کی نماز جنازہ فاضل بانڈے میں ادا کی گئی۔
اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ
سوات میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے مزید اشارے میں، اغوا کاروں نے ایک نجی سیلولر کمپنی کے دو ملازمین کی رہائی کے لیے 100 ملین روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ یہ دونوں سات ملازمین کے گروپ کا حصہ تھے، جنہیں منگل کو تحصیل مٹہ سے اغوا کیا گیا تھا۔
بدھ کے روز، اغوا کاروں نے پانچ ملازمین کو رہا کیا اور دو کو اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ اغوا کاروں نے 100 ملین روپے تاوان کے مطالبے کے ساتھ یرغمالیوں میں سے ایک کی تصویر بھی جاری کی۔
اس ضلع میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں سے تقریباً 13 سال قبل ایک فوجی آپریشن میں طالبان عسکریت پسندوں کو نکال باہر کیا گیا تھا۔ منگل کے دھماکے اور پولیس پر حملوں کے بعد کئی لوگوں نے دھمکی آمیز کال موصول ہونے کی شکایت کی ہے۔
پولیس نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن خیبرپختونخوا اسمبلی سردار خان کے بیٹے آصف سردار کی شکایت پر مقدمہ درج کرلیا۔ سردار نے پولیس کو بتایا کہ طالبان نے ان کے والد کو متنبہ کیا تھا کہ اگر انہیں رقم ادا نہ کی گئی تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گزشتہ ماہ بھی انتہا پسندوں نے ضلع کے چپریال پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا تھا۔ اگلے دن، ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور دو دیگر افسران کو فائرنگ کے تبادلے کے بعد اغوا کر لیا گیا جس میں اہلکار زخمی ہو گئے۔
مقامی آبادی حملوں کی حالیہ لہر سے پریشان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے پورے ضلع میں ان کے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت ضلع کی سڑکیں سیاحوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے خالی ہیں۔
سوات میں شدت پسندوں کی واپسی کی خبروں سے عوام خاصے پریشان ہیں۔ سول سوسائٹی کے ارکان نے سوات پولیس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہزاروں پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں عسکریت پسند دوبارہ سوات میں کیسے داخل ہوئے۔
مینگورہ کے مرکزی شہر نشاط چوک میں سول سوسائٹی کے ارکان نے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور وادی میں امن کے لیے نعرے بلند کر رہے تھے۔