پشاور سے "ایم وائے کے نیوز ٹی وی” کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق پشاور ہائیکورٹ نے مخصوص نشستوں کی تقسیم کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اس اہم کیس کی سماعت جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستوں، خصوصاً خواتین اور اقلیتوں کی سیٹوں کی تقسیم منصفانہ نہیں کی گئی۔ ان کے مطابق مسلم لیگ ن کو 8 کی بجائے 9 خواتین کی مخصوص نشستیں ملنی چاہییں تھیں۔ مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے جے یو آئی کو 10 مخصوص نشستیں دی ہیں، حالانکہ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی دونوں کو برابر یعنی 9،9 نشستیں دی جانی چاہییں کیونکہ دونوں جماعتوں نے پانچ، پانچ جنرل نشستیں جیتی تھیں۔
عدالت نے دورانِ سماعت سوال اٹھایا کہ جب تک مکمل پراسیس مکمل نہ ہو، تو مخصوص نشستوں کی تقسیم کیسے کی جا سکتی ہے؟ اس پر الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکرٹری لاء نے جواب دیا کہ آئینی طور پر الیکشن کے 21 دن بعد اسمبلی کا اجلاس بلانا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا انہیں نشستیں اسی وقت الاٹ کرنی تھیں۔ جسٹس ارشد علی نے الیکشن کمیشن کے مؤقف پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے لیے آپ نے 22 فروری کو پارٹی پوزیشن کی بنیاد بنائی ہے تو پھر یہ واضح کریں کہ 21 نشستیں بعد میں، مارچ میں کیسے دی گئیں؟ عدالت نے اس تضاد پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
الیکشن کمیشن کے نمائندے نے موقف اپنایا کہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا فیصلہ 22 فروری کی پارٹی پوزیشن کے مطابق ہی کیا گیا، لیکن عدالت نے نشاندہی کی کہ اگر تمام نشستیں اسی روز دی جاتیں تو بات اور ہوتی، اب یہ تقسیم تاخیر اور تضادات کی نشاندہی کرتی ہے۔ تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، جو آئندہ دنوں میں سنایا جائے گا