سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران وکیل سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ اگر یہ درخواستیں منظور ہو جاتی ہیں تو تین ممکنہ آئینی صورتحال جنم لے سکتی ہیں۔ پہلی، یہ کہ الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے بحال ہو جائیں گے۔ دوسری، عدالت اقلیتی فیصلوں میں سے کسی ایک پر عمل کر سکتی ہے، جن میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلے شامل ہیں۔ تیسری، عدالت فیصلہ کالعدم قرار دے کر اپیلوں کی ازسرنو سماعت کر سکتی ہے۔
سماعت کے دوران بینچ کے ججز نے وکیل پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا نے اپنی ہی پارٹی سے الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ آزاد حیثیت سے لڑنے کا فلسفہ کیا تھا؟ جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ آپ کبھی کہتے ہیں یہ آپ کے امیدوار ہیں، اور کبھی ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا سنی اتحاد اور کسی دوسری جماعت کے درمیان کوئی مفاہمت ہوئی ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جن امیدواروں کو آپ اپنا کہتے ہیں، کیا ان میں سے کسی نے خود آ کر اپنا موقف پیش کیا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ اپنی اس دلیل کو معطل کرتے ہیں مگر کالعدم نہیں کرتے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر آپ کے امیدواروں نے پی ٹی آئی جوائن کر لی ہے تو پھر سنی اتحاد کا ان پر حق دعویٰ کیسے بنتا ہے؟ آپ کی دلیل خود متضاد ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کے وکیل پی ٹی آئی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں؟ وکیل نے کہا کہ وہ اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں، ان کی شکست ہی ان کی اصل فتح ہے۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ نظرثانی درخواستیں ناقابل سماعت ہیں کیونکہ فیصلے میں کوئی غلطی یا قانونی سقم موجود نہیں، اور نظرثانی اسی بنیاد پر کی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کر دی ہے، جہاں فیصل صدیقی مزید دلائل جاری رکھیں گے۔