بقلم: امتل الھدٰی
وطنِ عزیز میں پچھلے چند برسوں کے دوران ایک ایسا شعبہ تیزی سے اُبھرا ہے جو ملک کے لئے بے شمار اور قیمتی زرِ مبادلہ کما رہا ہے، یہ شعبہ ہے کال سینٹرز کا جہاں روزانہ تین شفٹوں میں کام کرنے والے نوجوان فون کالز کے ذریعے دُنیا بھر کے گاہکوں سے بات کرتے ہیں ان کی شکایات سُنتے ہیں، انہیں سروسز مہیا کرتے ہیں اور ملکی کمائی روز بروز اضافے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں پاکستان میں کال سنٹر انڈسٹری ایک خاموش اور پُرامید انقلاب کی صورت سامنے آئی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ترقی یافتہ ممالک آؤٹ سورسنگ کے ذریعے اپنی کاروباری لاگت میں کمی چاہتے ہیں، وہی پاکستان نے اپنی نوجوان، تعلیم یافتہ، اور انگریزی بولنے والی افرادی قوت کے باعث دنیا کی نظر میں ایک پُرکشش مقام حاصل کر لیا ہے۔ فی الوقت، پاکستان میں تقریباً تیس لاکھ سے زائد افراد کال سنٹرز، بی پی او (Business Process Outsourcing)
اور آئی ٹی انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں میں سینکڑوں چھوٹے بڑے کال سنٹرز کام کر رہے ہیں جو امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی کمپنیوں کے لئے خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ آج پاکستان میں ایک ہزار سے زائد رجسٹرڈ کال سینٹرز موجود ہیں جبکہ چھوٹے پیمانے پر چلنے والے غیر رجسٹرڈ کال سینٹرز کو بھی شامل کیا جائے تو انکی تعداد دس ہزاد سے بھی زیادہ یے۔ عالمی ادارے Gartner
اور Tholons کی رپورٹیں اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ پاکستان دنیا کے ٹاپ آؤٹ سورسنگ ممالک میں جگہ بنا چکا ہے۔ پاکستان میں یہ صنعت نہ صرف زرمبادلہ کما رہی ہے بلکہ نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر حکومت اس شعبے پر خصوصی توجہ دے، پالیسیاں نرم کرے، اور آئی ٹی انفراسٹرکچر کو مزید بہتر بنائے تو یہ شعبہ 5 سے 10 لاکھ نوجوانوں کو روزگار دے سکتا ہے اور سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان کے خزانے میں لا سکتا ہے۔ آپکو بتاتا چلوں کہ صرف 2024-25 میں پاکستان نے اس شعبہ کے ذریعے 207 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ آمدنی حاصل کی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔ دنیا کی مثال لی جائے تو فلپائن اور بھارت نے کال سنٹر انڈسٹری کو قومی معیشت کا حصہ بنایا۔ صرف فلپائن کی کال سنٹر انڈسٹری سالانہ 26 ارب ڈالر کا زرمبادلہ کماتی ہے۔ پاکستان بھی اسی طرز پر آگے بڑھ سکتا ہے، بشرطیکہ حکومت پالیسی سطح پر رکاوٹیں ختم کرے، نوجوانوں کو تربیت دے اور انٹرنیٹ و بجلی کی بلاتعطل سہولیات فراہم کرۓ۔ کال سنٹرز محض ہیلو اور ہاؤ کین آئی ہیلپ یو کے کاروبار نہیں رہے، بلکہ یہ ڈیجیٹل معیشت کا بنیادی ستون بن چکے ہیں۔ پاکستان کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے تاکہ ہماری نوجوان نسل کے لئے نہ صرف روزگار کے دروازے کھلیں بلکہ ملک عالمی سطح پر ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اپنی شناخت قائم کر سکے۔ یہ وقت ہے کہ ہم کال سنٹر انڈسٹری کو محض ایک جز وقتی کام کی بجائے قومی اثاثہ سمجھ کر اسے پالیں، سنواریں اور فروغ دیں کیونکہ یہی وہ دروازہ ہے جو پاکستان کی معیشت کو استحکام اور نوجوانوں کو روشن مستقبل دے سکتا ہے۔ یہ شعبہ لاکھوں خاندانوں کی اب اُمید بن چکا ہے اور اس شعبے کے نوجوان جو اپنے گھروں میں بیٹھ کر ملکی وقار اور ملکی پرچم کو بُلند کر رہے ہیں انکی اُمید کو کسی صورت بھی توڑنا یا حوصلہ شکنی کرنا پاکستان کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔