ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ ستمبر میں ہوگا یا نہیں؟ اس سوال کا فیصلہ جمعرات کو ڈھاکا میں ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں ہوگا، لیکن بھارت کی طرف سے اسے ناکام بنانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق اگر بھارت اپنی چال میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان کرکٹ بورڈ کو 1.16 ارب روپے سے زائد مالی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نہ صرف ایشیا کپ کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے بلکہ پی سی بی چیئرمین محسن نقوی کی حیثیت کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ سری لنکا اور افغانستان بھی مبینہ طور پر اس لابی کا حصہ بن چکے ہیں جو پاکستان کو کرکٹ میدان میں بھی شکست دینا چاہتی ہے۔
ڈھاکا اجلاس میں بھارت کی شرکت اب تک مشکوک ہے، حالانکہ یہ اجلاس چیئرمین محسن نقوی کی صدارت میں طلب کیا گیا ہے۔ اے سی سی کے آئین کے مطابق اجلاس کی قانونی حیثیت کے لیے کم از کم تین ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک اور دس مکمل یا ایسوسی ایٹ اراکین کی موجودگی ضروری ہے۔ بھارت، افغانستان اور سری لنکا کی جانب سے شرکت نہ کرنے کی ضد نے اجلاس کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ایشیا کپ منسوخ ہوا تو پی سی بی کو مجموعی طور پر تقریباً 8.8 ارب روپے کی متوقع آمدن میں سے ایک بڑا حصہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ صرف ایشیا کپ سے پاکستان کو 1.16 ارب روپے کی آمدن کی امید ہے۔
دوسری جانب، بھارتی میڈیا نے ایک اور دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ محسن نقوی نے بطور وزیر داخلہ حالیہ کابل دورے کے دوران افغان حکام سے ڈھاکا اجلاس میں شرکت کی درخواست کی تھی، تاہم افغان بورڈ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور حمایت دینے سے انکاری ہے۔ پی سی بی نے ان تمام خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بھارتی پروپیگنڈے کا حصہ نہیں بنیں گے اور سنجیدگی سے اجلاس کی تیاری کر رہے ہیں۔ پی سی بی نے اپنے سابق سی او او سلمان نصیر کو اے سی سی کا نمائندہ مقرر کر کے ڈھاکا بھیج دیا ہے، جہاں وہ اجلاس اور دیگر معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ تین دن قبل برمنگھم میں ہونے والے "ورلڈ چیمپیئن شپ آف لیجنڈز” کے ایک میچ میں بھارت نے پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے میچ منسوخ ہوگیا۔ اس واقعے نے بھارت کی نیت کو مزید واضح کر دیا ہے کہ وہ کھیل کو بھی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگر ڈھاکا اجلاس ناکام ہوتا ہے اور ایشیا کپ منسوخ کیا جاتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان کرکٹ کے لیے بڑا دھچکا ہوگا بلکہ ایشیائی کرکٹ کے وقار پر بھی سوالیہ نشان بن جائے گا۔