تہران — مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر کھڑا ہے، جب اسرائیل نے ایران پر جمعہ کے روز شدید حملے کرتے ہوئے جوہری تنصیبات، فوجی اڈوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں ایران کے اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ کئی شہروں میں خوفناک تباہی کے مناظر دیکھے گئے۔ ایران نے ان حملوں کو "کھلی جارحیت” قرار دیتے ہوئے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد پورے خطے میں غیر معمولی تناؤ اور ممکنہ جنگ کے خطرات منڈلانے لگے ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ نے حملوں کی پہلی لہر جمعہ کی صبح تہران، نتنز، تبریز، اصفہان، کرمانشاہ، اراک سمیت کئی شہروں میں کی، جن میں ایران کی مرکزی یورینیم افزودگی کی تنصیب، بیلسٹک میزائل فیکٹریاں، جوہری تحقیقاتی مراکز اور اہم فوجی اڈے شامل تھے۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر میں تباہ شدہ عمارتیں، دھواں اور ملبے میں دبی ہوئی گاڑیاں اور رہائشی علاقوں میں خوف کی لہر دیکھی گئی۔
ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق حملے میں سپاہ پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی، ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری، اور خاتم الانبیاء ہیڈکوارٹرز کے کمانڈر جنرل غلام علی رشید شہید ہو چکے ہیں۔ اسی حملے میں ایرانی جوہری توانائی تنظیم کے سابق سربراہ فریدون عباسی اور اسلامی آزاد یونیورسٹی کے صدر محمد تہرانچی بھی مارے گئے، جنہیں ایران کا اہم جوہری دماغ تصور کیا جاتا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں کہا کہ یہ کارروائی ایران کے جوہری پروگرام اور میزائل صلاحیتوں کو مفلوج کرنے کیلئے کی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نتنز میں زیر زمین سینٹری فیوج تنصیبات اور دیگر حساس ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ حملہ "وجود کی بقاء کی جنگ” ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے حملے کو "سنگین جرم” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اس حملے کی "تلخ اور دردناک قیمت چکانی پڑے گی۔” ایرانی افواج کے ترجمان نے خبردار کیا کہ ایران بھرپور فوجی ردعمل کے لیے تیار ہے اور دشمن کو اپنے اقدام پر پچھتانا پڑے گا۔
دوسری جانب، امریکہ نے اس حملے سے لا تعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن اس کارروائی میں شامل نہیں تھا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ "ایران جوہری بم نہیں رکھ سکتا” اور یہ حملہ ممکنہ طور پر مذاکرات کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی یہی مؤقف دہرایا کہ امریکہ کا اس آپریشن سے کوئی تعلق نہیں، اور اس وقت امریکی فوجیوں کی سلامتی سب سے بڑی ترجیح ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے، تاکہ خطے کو مکمل جنگ میں جھونکنے سے بچایا جا سکے۔ عمان، جو ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے، نے اس حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور قطر سمیت کئی ممالک نے اسرائیل کی اس کھلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر ایران نے براہِ راست جوابی کارروائی کی تو یہ جنگ صرف اسرائیل اور ایران تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں آگ بھڑک اٹھے گی، جس میں امریکہ، حزب اللہ، حماس اور دیگر طاقتیں بھی کھنچ سکتی ہیں۔
عوامی سطح پر ایران میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، شہری تباہ شدہ عمارتوں اور جلتی گاڑیوں کے مناظر دیکھ کر صدمے میں ہیں۔ ایرانی سوشل میڈیا پر ہزاروں شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایران کا جواب کیا ہوگا؟ کیا مشرقِ وسطیٰ ایک اور تباہ کن جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے؟ یا عالمی طاقتیں ایک بار پھر سفارتی راہ نکالنے میں کامیاب ہوں گی؟ اس وقت پوری دنیا کی نظریں تہران اور تل ابیب پر جمی ہوئی ہیں۔