تہران (ایم وائے کے نیوز ٹی وی) — ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ایران کی جانب سے داغے گئے میزائلوں میں ‘سجیل-2’ میزائل دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ میزائل محض فائر پاور کا مظاہرہ نہیں بلکہ ایران کی بڑھتی ہوئی دفاعی و اسٹرٹیجک صلاحیت کا اعلان بھی ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق، ایران نے اسرائیل پر حملے کے لیے جس ‘سجیل-2’ میزائل کا انتخاب کیا، وہ نہ صرف دو ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ ٹھوس ایندھن (Solid Fuel) سے چلنے کی وجہ سے فوری ردعمل میں بھی زیادہ موثر ہے۔
اسرائیلی عسکری نامہ نگار ڈورون کدوش نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سجیل-2 ان چند میزائلوں میں سے تھا جنہوں نے اسرائیل کے دفاعی نظام کو چکما دے کر ڈین بلاک کے علاقے کو نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق، اس میزائل کا وزن، پے لوڈ (500 سے 650 کلوگرام تک دھماکا خیز مواد) اور دائرہ اثر معمولی نہیں بلکہ انتہائی خطرناک اور غیر معمولی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی دفاعی نظام جسے دنیا کا جدید ترین نظام سمجھا جاتا ہے کئی سجیل میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا۔
ماہرین کے مطابق، سجیل-2 کی سب سے اہم خصوصیت اس کا دو مرحلوں پر مشتمل ٹھوس ایندھن والا انجن ہے، جس سے میزائل کو لانچ کرنے کے لیے کم وقت درکار ہوتا ہے، جبکہ اس کی رفتار اور ہدف پر دقت سے حملہ کرنے کی صلاحیت اسے ایرانی میزائل نظام میں خاص بناتی ہے۔ ایران عام طور پر اپنے مغربی علاقوں سے اسرائیل کی جانب میزائل فائر کرتا رہا ہے، لیکن سجیل-2 کی طویل رینج کے باعث اب ایران ملک کے کسی بھی حصے سے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ میزائل حملے کسی مخصوص خطے تک محدود نہیں رہے۔
ایرانی حکام کے مطابق، اسرائیلی جارحیت کے ردعمل میں داغے گئے میزائلوں کی یہ 13ویں لہر تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی آباد کار اب یا تو شیلٹرز میں محدود ہو جائیں یا پھر "قبضہ کی گئی زمین” کو چھوڑ کر فرار ہو جائیں۔ ایران نے 1990 کی دہائی کے آخر میں میزائل ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا تھا، اور 2008 میں سجیل میزائل کی پہلی کامیاب آزمائش کی گئی۔ آج یہ میزائل خطے میں طاقت کا توازن بدلنے والا عنصر بنتا جا رہا ہے۔ عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر ایران نے یہ میزائل بڑی تعداد میں اسٹاک کر رکھے ہیں، تو یہ نہ صرف اسرائیل بلکہ پورے خطے کے لیے نئی اسٹریٹیجک چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔