واشنگٹن/تہران (ایم وائے کے نیوز ٹی وی) — امریکہ کی جانب سے ایران کی تین حساس ترین جوہری تنصیبات پر حملوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور خطے میں ایک بڑی جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اعلان کیا کہ امریکی فضائیہ نے فردو، نطنز اور اصفہان میں واقع ایرانی جوہری مراکز پر "کامیاب” حملے کیے ہیں، جنہیں وہ دنیا کے لیے "ایک تاریخی لمحہ” قرار دے رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے ان تنصیبات پر مکمل بمباری کی، اور تمام طیارے بحفاظت ایران کی فضائی حدود سے نکل چکے ہیں۔ اُن کے مطابق فردو پر بموں کا مکمل پے لوڈ گرایا گیا اور اب ایران کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ امریکی حکام نے میڈیا کو بتایا کہ بی ٹو سٹیلتھ طیارے جزیرہ گوام سے اُڑان بھر کر ایران پر حملے کے لیے بھیجے گئے تھے، جس کی منصوبہ بندی کئی دنوں سے کی جا رہی تھی۔
ایران کی جانب سے فوری طور پر کسی عسکری ردعمل کا اعلان تو نہیں کیا گیا، لیکن سپاہ پاسداران انقلاب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ایرانی خودمختاری پر براہِ راست حملہ ہے، جس کا جواب جلد اور بھرپور انداز میں دیا جائے گا۔ تہران میں ایمرجنسی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جبکہ ایران کے سرکاری میڈیا نے اسے کھلی جارحیت قرار دیا ہے۔
دوسری جانب دنیا بھر سے اس امریکی کارروائی پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ کیوبا کے صدر میگوئل دیاز کانیل نے امریکی حملے کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ انسانیت کو ناقابلِ واپسی بحران میں دھکیل رہا ہے۔ چلی کے صدر نے بھی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ طاقت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ قانون توڑنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔
میکسیکو نے اس واقعے پر فوری طور پر بات چیت کی اپیل کی ہے، جب کہ وینزویلا کے وزیرِ خارجہ ایوان گل نے امریکا پر اسرائیل کی ایما پر خطے میں جنگ بھڑکانے کا الزام عائد کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے کہا ہے کہ یہ پیش رفت نہایت خطرناک ہے اور خطے کو مزید جنگی تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ ہر صورت سفارتی حل کو ترجیح دیتا ہے۔ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے اگرچہ ایران کے جوہری اور بیلیسٹک پروگرام کو تشویش ناک قرار دیا ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس طرح کے حملے عالمی امن و سلامتی کے لیے مزید خطرہ بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کشیدگی کم کرنے، مکالمے اور سفارت کاری کی طرف لوٹنے کی فوری ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ امریکی حملے سے محض چند روز قبل جنیوا میں ایران اور یورپی طاقتوں کے درمیان جوہری تنازع پر مذاکرات ہوئے تھے جن میں ایران نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ یورینیم افزودگی ان کی "ریڈ لائن” ہے اور اس پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ تاہم اس حملے نے ان سفارتی کوششوں کو مکمل طور پر دفن کر دیا ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ حملہ صرف ایران ہی نہیں، بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف تیل کی عالمی قیمتوں پر پڑے ہیں بلکہ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں بھی شدید مندی دیکھی گئی ہے۔
ایم وائے کے نیوز ٹی وی کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جب کہ چین، روس اور ترکی جیسے ممالک نے بھی غیر رسمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کی جوابی کارروائی کی صورت میں صورتحال بگڑنے کا خدشہ ہے اور مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر حالات کو فوری طور پر نہ سنبھالا گیا تو دنیا کسی بڑی جنگ کی دہلیز پر کھڑی ہو سکتی ہے۔