کالم:خاموش دنیاؤں کے مسافر
بقلم: کاشف شہزاد
ماما اور پاپا مجھے بھی بولنا ہے, یہ وہ جملہ ہے جو اکثر ایک آٹزم سے متاثرہ بچے کی آنکھوں سے جھانکتا ہے، لیکن الفاظ کی صورت کبھی لبوں تک نہیں آ پاتا مگر خاموشی کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے، ایک اندازِ بیاں جو لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ آٹزم سے جُڑے بچے اور افراد اسی خاموش دنیا کے مکین ہوتے ہیں جہاں احساسات گہرے ہوتے ہیں، جذبات وسیع مگر اظہار محدود۔ آٹزم کوئی بیماری نہیں، ایک نیورولوجیکل کیفیت ہے، ایک ایسا طرزِ حیات جس میں دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور ردعمل دینے کا انداز مختلف ہو جاتا ہے۔ آٹزم ایک نیورولوجیکل حالت ہے جو بچوں میں ابتدائی عمر میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ زبان، سماجی روابط اور رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر 100 بچوں میں سے 1 بچہ آٹزم سے متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل بھی حل طلب ہیں، آٹزم جیسے حساس موضوع کو نہ تو سمجھا جاتا ہے، نہ ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ آج کا ہمارا یہ معاشرہ "مختلف” کو فوراً "معمول سے ہٹا ہوا” سمجھ لیتا ہے، جبکہ آٹزم والے بچے کسی بھی عام بچے سے کم نہیں ہوتے، بلکہ اکثر ذہنی طور پر کئی میدانوں میں بہتر اور انوکھے ہوتے ہیں۔ ان کے اندر کا تخیل، فن، ریاضی، یا کسی خاص شعبے میں مہارت ہمیں حیران کر دیتی ہے۔ مگر افسوس، ہمارے نصاب، نظام، اور نظریات اب تک ان کی ضروریات کو مکمل طور پر سمجھنے اور قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں آٹزم پر بات کرنا آج بھی ایک معاشرتی جھجھک کا شکار ہے۔ والدین پریشان، اساتذہ غیر تربیت یافتہ، اور حکومت خاموش۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں آٹزم سے جُڑے افراد کے لیے خصوصی اسکولز، تھراپی سینٹرز، ہنر مندی کی ٹریننگ اور روزگار کے مواقع موجود ہیں، مگر ہمارے ہاں ابھی پہلا قدم بھی درست طور پر نہیں اٹھایا گیا۔ پاکستان میں آٹزم سے متعلق کوئی حتمی مردم شماری یا سرکاری ڈیٹا موجود نہیں۔ نجی سطح پر کام کرنے والے ادارے جیسے RARE،
Autism Resource Centre Pakistan (ARCP)،اور
KAARWAN
جیسے محدود پلیٹ فارمز والدین کی رہنمائی تو کرتے ہیں، مگر ریاستی سطح پر والدین کے لئے مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر آٹزم کا شکار بچے کی بروقت تشخیص, ABA تھراپی، اسپیشل ایجوکیشن اور والدین کی رہنمائی موجود ہو، تو نیورولوجیکل پریشانی میں جینے والے بچے معاشرے کے کامیاب رکن بن سکتے ہیں۔ آٹزم ایک حقیقت ہے جسے ہمیں سچ سمجھنے کے ساتھ قبول کرنا ہوگا تاکہ ہر بچے کو اپنی انفرادیت کے ساتھ جینے کا حق دے سکیں۔ اگر ہم آٹزم کے جہان میں جھانکیں، تو ہمیں صرف خاموشی نہیں، ایک الگ قسم کی روشنی نظر آئے گی۔ وہ روشنی جو دنیا کو محبت، صبر، اور حقیقی انسانی وقار کا مطلب سکھاتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم شعور، آگہی اور قبولیت کی شمع جلائیں تاکہ آٹزم کے ساتھ جینے والے بچے محض مریض نہ رہیں بلکہ باوقار شہری بن سکیں۔ اس کے لئے ہمیں چاہیے کہ سرکاری سطح پر آٹزم سینٹرز قائم کریں، اساتذہ اور والدین کی تربیت کو لازمی قرار دیں، میڈیا پر اس حوالے سے مثبت نمائندگی سامنے آئے، قانون سازی کی جائے تاکہ ایسے بچوں اور افراد کو تحفظ اور روزگار فراہم ہو سکے۔ یہ بچے ہماری ذمہ داری ہیں، ان کی خاموشیوں میں صداقت، معصومیت اور کائناتی سچائی چھپی ہوتی ہے، ہمیں صرف سننے کا ہنر سیکھنا ہے۔