کالم: پاکستان میں سیلاب، ریاستی غفلت اور اجتماعی بےحسی
بقلم : کاشف شہزاد
یہ کوئی افسانہ نہیں، ایک خوں چکاں سچ ہے جو ہر سال ہماری زمین پر پانی کی صورت برستا ہے، دریاؤں سے نکل کر گھروں میں داخل ہوتا ہے، زندگیوں کو روندتا ہے اور ایک لمحے میں برسوں کی محنت خاک کر دیتا ہے۔ پاکستان، جو کبھی دریاؤں کی سرزمین کہلاتا تھا، آج پانی کی بےرحم تباہی کا استعارہ بن چکا ہے۔ 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے جس طرح ملک کے ایک تہائی حصے کو زیرِ آب کر دیا، وہ محض ایک قدرتی آفت نہیں تھی، بلکہ ایک اجتماعی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق تباہی سے 1700 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، 3 کروڑ سے زائد افراد بےگھر ہوئے، اور انفرااسٹرکچر کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے سیکھا؟ نہیں۔ آج جولائی 2025 کے موسمِ برسات نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نشیبی علاقے دوبارہ پانی میں ڈوب رہے ہیں۔ بلوچستان میں راستے منقطع، سندھ میں اسکول پناہ گاہیں بن چکے اور لوگ، وہی پرانے چہروں والے لوگ، پھر سے خیموں میں سہمے بیٹھے ہیں۔ مگر ریاست؟ شاید حسبِ روایت تب تصاویر لے کر اقوامِ عالم کے دروازے پر دستک دینے کی تیاری میں ہے۔ ہر سال کی طرح، اس بار بھی حکومتی ادارے سیلاب کی پیشگی تیاری میں ناکام رہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) اور صوبائی ادارے وسائل کی کمی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث مؤثر اقدامات نہ اٹھا سکے۔ عوامی سطح پر بھی سیلاب کے خطرات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، جس کے نتیجے میں نقصانات میں اضافہ ہوا۔ عوامی بےحسی بھی کچھ کم نہیں۔ سیلفیوں، سوشل میڈیا اور ہیش ٹیگ کمپین سے آگے ہم نے کبھی اجتماعی قدم نہیں بڑھایا۔ کیا کسی نے کبھی سوچا کہ جن کے کھیت بہہ گئے، وہ آئندہ برس کیا بوئیں گے؟ جن کے بچے پانی میں بہہ گئے، ان کے زخم ہم کب بھریں گے؟ ہر سال ہم ارادہ کرتے ہیں کہ جدید فلڈ مینجمنٹ سسٹمز، دریاؤں کے کنارے ری انفورسڈ بند، بارشوں سے پہلے وارننگ سسٹم، اور عوامی شعور کی بیداری جیسے کام سیلابی آفت آنے سے پہلے کریں گے مگر جب تک نیت کا زاویہ درست نہیں ہوگا، ہر سال یہ پانی صرف زمین نہیں، ضمیر بھی بہاتا رہے گا۔ پاکستان کو اب فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے طویل المدتی منصوبہ بندی کرۓ۔ عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے اور قدرتی آفات کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو آنے والے سالوں میں تباہی کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا، یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر ایک محفوظ اور مستحکم پاکستان کی تعمیر کے لیے قدم اٹھائیں۔ اب وقت ہے کہ ہم سیلاب کو صرف موسم کی خبر نہیں بلکہ قومی ایمرجنسی سمجھیں۔ اگر آج بھی ہم نہ جاگے تو آنے والی نسلیں ہمیں بےحسی، نالائقی اور غفلت کی ایک زندہ مثال سمجھ کر تاریخ میں دفن کر دیں گی۔