پشاور (ایم وائے کے نیوز ٹی وی): سینیٹ انتخابات کے دوران خیبرپختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف کے ناراض امیدوار خرم ذیشان نے ایک بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے انہیں انتخابات سے دستبردار ہونے کے عوض وزارت کی پیشکش کی تھی، تاہم انہوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اصولوں پر سودا نہیں کریں گے اور الیکشن میں کھڑے ہونا ہی ان کی اصل کامیابی ہے۔
خرم ذیشان نے واضح کیا کہ انہیں خود بانی پی ٹی آئی عمران خان نے سینیٹ انتخابات کے لیے نامزد کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سینیٹ کی نشستوں کی جو "بندربانٹ” ہوئی، اس کے خلاف وہ بطور احتجاج میدان میں آئے ہیں تاکہ پارٹی میں نظریات کی جگہ اصولوں کی سیاست کو بحال کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی عددی اعتبار سے آسانی سے پانچ جنرل نشستیں جیت سکتی تھی، لیکن معلوم نہیں کیوں پانچواں امیدوار پارٹی کی طرف سے سامنے نہیں لایا گیا، حالانکہ آفیشل لسٹ میں ان کا نام موجود تھا۔
خرم ذیشان نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی باضمیر ہیں اور وہ آج ضرور اپنے ضمیر کی آواز پر انہیں ووٹ دیں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ ان کی امیدواری نہ صرف ایک اصولی مؤقف ہے بلکہ یہ پیغام بھی ہے کہ پارٹی فیصلے بند کمروں میں نہیں بلکہ جمہوری عمل کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ خرم ذیشان کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ سے ہے۔ انہوں نے جامعہ پشاور سے قانون اور جرنلزم میں ڈگریاں حاصل کیں، بعد ازاں سی ایس ایس کا امتحان بھی پاس کیا لیکن من پسند گروپ نہ ملنے کے باعث سرکاری ملازمت اختیار نہیں کی۔ بعد ازاں انہوں نے عدلیہ کا راستہ اپنایا اور ایبٹ آباد میں بطور سول جج تعینات ہوئے، تاہم کم تنخواہ کے باعث یہ عہدہ چھوڑ کر دبئی چلے گئے۔
دبئی میں انہوں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بطور لیگل ایڈوائزر خدمات انجام دیں اور پھر 2011 میں وطن واپس آ کر پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ پارٹی میں انہوں نے کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں، جن میں ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر، جنوبی ریجن کے سینئر نائب صدر، صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور اب ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری شامل ہیں۔
ان کا شمار تحریک انصاف کے ان کارکنوں میں ہوتا ہے جو ابتدائی دنوں سے پارٹی کے ساتھ منسلک ہیں اور ہمیشہ نظریاتی سیاست کے حامی رہے ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے موقع پر ان کی خودمختارانہ امیدوار کی حیثیت سے موجودگی، نہ صرف پارٹی میں جاری اندرونی کشمکش کو بے نقاب کر رہی ہے بلکہ یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ اصولوں کے لیے کھڑے ہونا آج بھی ممکن ہے، چاہے قیمت کچھ بھی ہو۔
خرم ذیشان کا کہنا تھا، "مجھے وزارت کی پیشکش ہوئی، مگر میں نے اسے یکسر مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ضمیر کا سودا کوئی نہیں کر سکتا۔ میری اصل جیت یہ ہے کہ میں اصولوں پر قائم رہا، چاہے نتیجہ کچھ بھی نکلے۔”