تل ابیب – مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر اعلان کیا ہے کہ اس کی عسکری توجہ اب غزہ سے ہٹ کر مکمل طور پر ایران پر مرکوز ہو چکی ہے۔ اسرائیلی اخبار کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فوج نے ایران کو اپنا "پرائمری وار فرنٹ” اور غزہ کو "سکینڈری فرنٹ” قرار دے دیا ہے، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسرائیل اب براہِ راست ایرانی سرزمین پر حملوں کو اپنی جنگی حکمت عملی کا مرکز بنا چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایران کے اندر 150 اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں فوجی تنصیبات، مواصلاتی مراکز، اور اسلحہ ڈپو شامل تھے۔ آئی ڈی ایف کا دعویٰ ہے کہ ایران کی دو اہم فوجی تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا گیا، جب کہ کچھ ذرائع کے مطابق ان حملوں میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق حساس مقامات، خصوصاً ‘فورڈو’ اور ‘نوٹنگ’ سائٹس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ اسرائیلی فوج نے ان جوہری تنصیبات پر حملے کا اعتراف کیا ہے، تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ان مراکز کو اس شدت کا نقصان نہیں پہنچا جیسا کہ مطلوب تھا۔ عسکری ذرائع کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے ایران کی فضائی حدود میں "محفوظ راستہ” حاصل کر لیا ہے، جس کی مدد سے اب اسرائیلی جیٹس تہران سمیت ایرانی سرزمین پر آزادانہ پرواز کر سکتے ہیں۔
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب غزہ میں طویل عرصے سے جاری آپریشن کے بعد عالمی سطح پر اسرائیل کو شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ اسرائیل نے اب اپنی عسکری توجہ فلسطین سے ہٹا کر براہِ راست ایران پر مرکوز کر لی ہے، جسے وہ مشرق وسطیٰ میں اپنی سب سے بڑی اسٹریٹیجک خطرہ سمجھتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کی جانب سے اس قسم کا واضح اور کھلا اعتراف ایک نئی جنگی حکمت عملی کا اعلان ہے، جو ممکنہ طور پر پورے خطے کو مزید غیر یقینی اور خطرناک صورتحال کی جانب دھکیل سکتا ہے۔ اس نئی جنگی ترجیح کے نتائج نہ صرف ایران بلکہ لبنان، شام، یمن اور دیگر خطوں میں بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں جہاں ایران کے حلیف گروپ سرگرم ہیں۔